Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 82
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ
وَمَا : اور نہ كَانَ : تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَخْرِجُوْهُمْ : انہیں نکال دو مِّنْ : سے قَرْيَتِكُمْ : اپنی بستی اِنَّهُمْ : بیشک اُنَاسٌ : یہ لوگ يَّتَطَهَّرُوْنَ : پاکیزگی چاہتے ہیں
نہیں تھا اس قوم کا جواب مگر یہ کہ وہ کہنے لگے کہ نکالو ان لوگوں کو اپنی بستی سے بیشک یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے : وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْھُمْ مّنْ قَرْیَتِکُمْ ج اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ ۔ (الاعراف : 82) ” نہیں تھا اس قوم کا جواب مگر یہ کہ وہ کہنے لگے کہ نکالو ان لوگوں کو اپنی بستی سے بیشک یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں “۔ قومِ لوط کے بگاڑ کی انتہا اور اس کے نتائج حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے اس جواب پر غور فرمایئے کہ لوط (علیہ السلام) نے ہر ممکن طریق سے ان کے سامنے ان کی اخلاقی برائیوں کو واضح کرنے کی کوشش فرمائی۔ نہایت موثر انداز میں انھیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جس عادت بد کا شکار ہوگئے ہو یہ ایک ایسا جرم ہے جسے اجتماعی شکل میں اللہ کی زمین پر کسی قوم نے اختیار نہیں کیا۔ بڑی سے بڑی گناہگار اور پاپی قومیں گزری ہیں لیکن وہ اپنے تمام جرائم کے باوجود اس طرح کی مکروہ حرکت کے مرتکب کبھی نہیں ہوئے۔ اس لیے تمہیں سوچنا چاہیے کہ تم نے جو طور اطوار اختیار کرلیے ہیں اس کا نتیجہ آخر کیا ہوگا ؟ تمہاری نسلیں تباہ ہوجائیں گی۔ تم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہو مزید برباد ہوجاؤ گے۔ تمہاری عورتیں آوارہ ہوجائیں گی۔ تم ہر طرح کے اخلاقی مفاسد کا شکار ہو کر رشتوں کی آبرو سے محروم ہوجاؤ گے لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) کی کسی نصیحت کا ان پر اثر ہونا تو دور کی بات ہے انھوں نے ان کے وجود کو بھی اپنے لیے ناقابلِ برداشت محسوس کرنا شروع کردیا۔ انسان کے بگاڑ میں ایک تدریج ہوتی ہے جس طرح اصلاح کا عمل آہستہ آہستہ اپنی معراج کو پہنچتا ہے اسی طرح بگاڑ کے سفر میں بھی کئی مدارج آتے ہیں جس کے اندر ذرہ برابر بھی خیر باقی ہوتا ہے وہ کہیں نہ کہیں جا کر رک جاتا ہے یا اور کچھ نہیں تو وہ یہ ضرور محسوس کرتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں یہ ایک برائی ہے جب تک یہ احساس زندہ رہتا ہے وہ جرم چھپا کر کرتا ہے اور پھر ہر وقت اس بات کی امید رہتی ہے کہ شاید کبھی وہ راہ راست اختیار کرلے لیکن جب آدمی اس سفر پر رواں دواں رہتا ہے تو آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے برائی اچھائی معلوم ہونے لگتی ہے اور برائی سے روکنے والے لوگ اس کو اپنے دشمن معلوم ہوتے ہیں وہ برائی سے اس حد تک مانوس ہوجاتا ہے کہ اس سے روکنے والے اس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں پھر اسے یکسوئی حاصل کرنے اور اپنی خوشیوں کو مکمل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا کہ وہ برائی سے روکنے والوں کی زبانیں بند کر دے اور یا انھیں اپنے شہر سے نکال دے۔ قوم لوط بھی معلوم ہوتا ہے اس برائی کے ارتکاب کے نتیجے میں برائی کے احساس سے محروم ہوگئی تھی بلکہ برائی اسے نیکی معلوم ہونے لگی تھی۔ اب اس کے لیے حضرت لوط کا وجود ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا اس لیے جب آپ نے ان پر تنقید جاری رکھی تو بالاآخر انھوں نے آپ کی تنقید کے جواب میں یہ کہا کہ ہم تو اپنا رویہ بدلنا نہیں چاہتے ہم نے اپنی خوشیوں کے لیے جو راستہ طے کرلیا ہے اسے چھوڑ دینا ہمارے لیے گوارا نہیں اور تم اگر ہماری بستی میں رہتے ہو تو تم یقینا ہمیں اس سے روکو گے اس سے ہمارے رنگ میں بھنگ پڑے گا ‘ ہماری خوشیاں گہنا کر رہ جائیں گی اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے کہ تمہیں یہاں سے نکال دیا جائے۔ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ لوط اور اس پر ایمان لانے والے چونکہ اپنے آپ کو بڑا پاکباز سمجھتے ہیں، ہمارا ان سے نباہ نہیں ہوسکتا، اس لیے انھیں اس بستی سے نکال باہر کرو۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ لوگ اپنے آپ کو پاکباز سمجھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک پاکبازی ایک جرم بن کر رہ گیا تھا جس طرح ناک کٹوں میں ناک والا نکو بن کر رہ جاتا ہے اور تمام اسے اپنے مذاق کا نشانہ بنا لیتے ہیں اسی طرح برائی میں ڈھل جانے والے لوگ نیکی کو ایک مذاق سمجھنے لگتے ہیں اور نیکی کا درس دینے والوں کو وہ اپنا دشمن خیال کرتے ہیں اور جو آدمی انہی کی خیر خواہی میں بار بار انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے وہ یا اسے قتل کردیتے ہیں اور یا اسے اپنے شہر سے نکال دیتے ہیں۔ غالب نے عشق و محبت کے رشتے کے حوالے سے جو بات کہی وہ نیکی اور برائی کے رشتے کے حوالے سے بھی ایک حقیقت ہے اس نے کہا تھا ؎ میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں اللہ کا قانون اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک قومیں اللہ کے رسول کو برداشت کرتی ہیں وہ انھیں ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب قوموں کے لیے اللہ کا رسول اور اس کی دعوت ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں تو پھر وہ پیغمبر کو ہجرت کر جانے کا حکم دیتا ہے اور قوم کو عذاب کی نذر کردیا جاتا ہے۔ چناچہ قوم لوط نے بھی جب آپ کو شہر سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو گویا انھوں نے خود کشی کا فیصلہ کیا کیونکہ پیغمبر اپنی قوم میں روح کی مانند ہوتا ہے جس طرح جسم سے روح نکل جائے تو جسم کو باہر پھینک دیا جاتا ہے اس طرح قوم جب رسول کی دعوت سے لاتعلقی کا اعلان کردیتی ہے اور رسول کی ذات کو برداشت کرنے سے انکار کردیتی ہے تو پھر رسول کے وہاں سے ہجرت کر جانے کے بعد وہ قوم ایک مردار کی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے باقی رکھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چناچہ قوم لوط کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اللہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس بستی سے نکلنے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ پیچھے پلٹ کر نہ دیکھنا اب یہ بستی اور اہل بستی تباہ کردیئے جائیں گے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے :
Top