Tafseer-al-Kitaab - Al-An'aam : 142
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ
فَاَخَذَتْهُمُ : تو انہیں آلیا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : صبح کے وقت رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے پڑے
پس ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے
فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا ج اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْ شُعَیْبًا کَانُوْا ھُمُ الْخٰسِرِیْنَ ۔ فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ ج فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 91، 92، 93) ” پس ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔ شعیب کے جھٹلانے والے ہی آخر کار برباد ہو کر رہے۔ اور شعیب یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ اے برادرانِ قوم میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے “۔ قومِ شعیب پر آنے والا عذاب اور اس میں عبرت کا سامان قومِ شعیب پر جو عذاب آیا اس کی نوعیت اور کیفیت کیا تھی اس کے لیے جب ہم قرآن کریم میں اس واقعہ کی تفصیل پڑھتے ہیں تو مختلف آیات میں ہمیں تین الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ متذکرہ آیت میں عذاب کو الرجفۃ سے تعبیر کیا گیا ہے اور سورة ھود کی آیت نمبر 94 میں اس کی تعبیر لفظ صیحۃ سے کی گئی ہے جس کے معنی ڈانٹ ‘ کڑک اور چیخ کے ہیں۔ پھر سورة شعراء میں آیت نمبر 189 میں اس عذاب کو عذاب یوم الظلۃ سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دور سے دیکھنے میں غبار یا دھویں کے ایک ستون یا پہاڑ کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ ان تمام تعبیرات کو سامنے رکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر پہلے زلزلہ آیا اس میں یخ بستہ ہوائیں بھی تھیں۔ زلزلے اور ہوائوں کی گونج اور بادل کی گرج نے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی جسے صیحۃ سے تعبیر کیا گیا ہے زلزلہ جب تیز رفتاری سے آتا ہے تو اس میں گونج پیدا ہوتی ہے اور یہی گونج بعض دفعہ دلوں کو پھاڑ دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے اسی وجہ سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گر کے رہ گئے ہوں کہ زمین نے ان کو سہارا دینا چھوڑ دیا اور دلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور پھر اس زلزلے سے پہاڑوں کے پھٹنے کے باعث تیزی سے غبار اٹھا ‘ آسمان پر ایسی خوفناک گھٹا اٹھی جس نے ایک پہاڑ کی شکل اختیار کرلی اور پوری قوم نے یوں محسوس کیا جیسے ایک سائبان کی مانند پہاڑ ان کے سروں پر چھا گیا ہے۔ زمین ان کو نگل جانا چاہتی ہے اور ساتھ بادلوں کی کڑک نے اس ہولناکی میں مزید اضافہ کردیا۔ اس پوری صورتحال کو اگر ذہن میں لانا ممکن ہو تو اس سے اس عذاب کی دھندلی سی تصویر ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ ایسے ہولناک عذاب کے بعد یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ یہ قوم کس طرح کی ہمہ گیر تباہی کا شکار ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم کی تباہی مدت ہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل بنی رہی۔ چناچہ زبور دائود میں ایک جگہ آتا ہے کہ اے خدا فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد باندھ لیا ہے لہٰذا تو ان کے ساتھ وہی کر جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا اور یسع نبی ایک جگہ بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آشور والوں سے نہ ڈرو اگرچہ وہ تمہارے لیے مصریوں کی طرح ظالم بنے جا رہے ہیں لیکن کچھ دیر نہ گزرے گی کہ رب الافواج ان پر اپنا کوڑا برسائے گا اور ان کا وہی حشر ہوگا جو مدیان کا ہوا۔ اگلی آیت کریمہ میں نہایت موثر انداز میں اس عذاب کا نتیجہ بیان کیا گیا۔ گزشتہ دو آیات میں قوم شعیب کے بڑے لوگوں نے حضرت شعیب اور مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے دو باتیں کہیں ایک یہ کہ تمہیں ہم اپنے شہروں سے نکال دیں گے اور دوسری یہ بات کہ اگر تم نے شعیب کا اتباع نہ چھوڑا تو تم نقصان اٹھائو گے اور تباہ ہوجاؤ گے۔ اس آیت کریمہ میں تلمیح کے انداز میں دونوں باتوں کا ذکر فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے حضرت شعیب کی تکذیب کی ہم نے ان کی بستیوں کو اس طرح مٹایا کہ ان کی بستیوں سے گزرنے والا کوئی شخص دیکھ کر اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بستیاں کبھی آباد بھی رہی ہوں گی۔ اس قدر ہمہ گیر تباہی کہ وہ بالکل بےآباد کھنڈرات پر مشتمل ایک ویرانہ معلوم ہوتی تھیں جس میں زندگی کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا اور یہ تباہ ہونے والی اور مٹ جانے والی بستیاں ان لوگوں کی تھیں جو حضرت شعیب اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے سر پر جو عذاب تلا کھڑا ہے چند دنوں کی بات ہے اس کے نتیجے میں وہ خود ان بستیوں سے نکال دیئے جائیں گے اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ شعیب کی قوم نے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے یہ کہا کہ اگر تم نے شعیب کا اتباع نہ چھوڑا تو تم نقصان اٹھائو گے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اب ان بستیوں پر ٹوٹنے والے عذاب کو دیکھو اور اس کے نتیجے میں بستیوں کی تباہی ملاحظہ کرو اور پھر فیصلہ کرو کہ نقصان اٹھانے والا کون ہے۔ حضرت شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں نے نقصان اٹھایا اور یا ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جو انھیں نقصان کی دھمکیاں دیتے اور تباہی اور بربادی سے ڈراتے تھے۔ یہی وہ عبرت کی چیزیں ہیں کہ اگر آدمی کی آنکھوں کا پانی مر نہیں گیا تو قدم قدم پر اس کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے اور اسی عبرت ہی کے لیے ان واقعات کو بیان کیا جا رہا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں سابقہ رکوع کی طرح حضرت شعیب کے طرز عمل کو بیان کیا گیا ہے اس سے پہلے میں بیان کرچکا ہوں کہ دونوں امکانات موجود ہیں کہ یہاں جس طرز عمل کو زبان دی گئی ہے وہ عذاب سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ ممکن ہے کہ آپ نے عذاب آنے سے پہلے اس قوم سے آخری بات کہتے ہوئے منہ پھیرا ہو اور ہجرت کر کے ان بستیوں سے نکل گئے ہوں اور ان پر یہ بات واضح کردی ہو کہ میں آج تک تمہارے غم میں گھلتا رہا اور تمہارے ساتھ خیر خواہی میں میں نے کمی نہیں چھوڑی لیکن تم ایک ایسی قوم ہو جنھیں خیر خواہوں کی خیر خواہی متاثر نہیں کرتی وہ اپنے کافرانہ طرز عمل کو کبھی بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر ایسے لوگوں پر اگر عذاب ٹوٹتا ہے تو میں اس پر کیا افسوس کروں اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تباہی مکمل ہوجانے کے بعد آپ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں اور آنے والے دور کے انسانوں کی نصیحت کے لیے یہ بات فرمائی کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور یہاں تک خیر خواہی کی کہ تمہاری گالیاں سن کر دعائیں دیتا رہا تم نے اپنے دروازے مجھ پر بند کیے لیکن میں نے اپنے دل کے دروازے ہمیشہ تمہارے لیے کھلے رکھے لیکن تم نے بجائے اس خیرخواہی کی قدر کرنے کے جو طرز عمل اختیار کیا اب اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ میں پہلے دن سے تمہیں تنبیہ کرتا رہا کہ اگر تم نے کفر سے توبہ نہ کی اور مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ دن دور نہیں جب عذاب تمہاری کمر توڑ دے گا لیکن تمہیں اپنے کفر کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی اس لیے آج میں اگر تم پر غم کھائوں تو کس بات کا غم کھائوں ؟ اس لیے کہ یہ سب کچھ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اللہ کا تو قانون ہی یہ ہے کہ جب بندے کبھی اپنی حالت کی شکایت کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ انھیں اعمال کا جائزہ لینے کا حکم دیتا ہے۔ اکبر نے ٹھیک کہا ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ یہاں تک پانچ معذب قوموں کا تذکرہ ہوا اور کسی حد تک تفصیل سے بتایا گیا کہ یہ وہ قومیں ہیں جن کی طرف اللہ کے رسول آئے لیکن انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے جب انکار کیا تو اس کا نتیجہ عذاب کی صورت میں نکلا یہ محض تاریخی واقعات نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد مشرکین مکہ اور دیگر لوگوں نے جو رویہ آپ کی دعوت کے ساتھ اختیار کیا یہ واقعات انہی کے انجام کے آئینے کے طور پر پیش کیے گئے تاکہ مشرکین مکہ اور دوسرے لوگ اچھی طرح اس آئینہ میں اپنی شکل دیکھ لیں کہ جن قوموں پر اللہ کا عذاب آیا ان کی طرف بھی اللہ کے نبی اور رسول آئے تھے جس طرح آج ان کی طرف اللہ کے ایک رسول آئے ہیں۔ ان رسولوں نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام رکھا تھا اور جب تک انھیں تبلیغ و دعوت کا موقع ملا انھوں نے کامل خیر خواہی ‘ دلسوزی ‘ ہمدردی اور جانسپاری سے وہ پیغام ان کے سامنے پیش کیا۔ جس طرح آج آنحضرت ﷺ ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ان کی قوموں نے ان کی ہمدردی اور خیر خواہی کی قدر کرنے کی بجائے معاندانہ رویہ اختیار کیا۔ ہر قدم پر ان کی تبلیغ و دعوت کے راستے میں روڑے اٹکائے ‘ ان کے لیے معاشی دشواریاں پیدا کیں ‘ ہر ممکن اذیتیں پہنچائیں ان پر ایمان لانے والوں کو بری طرح ایمان لانے کی سزائیں دیں حتیٰ کہ ان کا جینا دوبھر کردیا اور جیسے جیسے پیغمبر تبلیغ و دعوت میں سرگرمی دکھاتے ویسے ویسے ان کی مخالفتوں میں شدت پیدا ہوتی جاتی حتیٰ کہ وہ پیغمبر اور مسلمانوں کو ملک بدر کرنے یا قتل کرنے کے منصوبے باندھنے لگے۔ بالکل اس طرح جس طرح مشرکینِ مکہ اور مدینے کے اہل کتاب نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ طرز عمل اختیار کیا کہ آپ کو سالوں تک کبھی ایک لمحے کے لیے چین نہ لینے دیا۔ آپ کے قتل کرنے کا ایک مکمل منصوبہ بنایا گیا لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی ‘ آپ ہجرت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دارالہجرت میں بھی آپ کو چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ سابقہ کافر امتوں کے ساتھ مشرکین مکہ کی یہ یکسانی اور پہلے رسولوں کے ساتھ آنحضرت کی ہم آہنگی کیا یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ یہ واقعات دوسروں کے پیرائے میں مشرکین مکہ اور دوسرے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہیں کہ وہ قومیں تمہاری طرح کا رویہ اختیار کر کے تباہ ہوگئیں تم اگر بچنا چاہتے ہو تو اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرو اور آنحضرت ﷺ پر ایمان لا کر دنیا اور آخرت بنا لو۔
Top