Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 97
اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآئِمُوْنَؕ
اَفَاَمِنَ : کیا بےخوف ہیں اَهْلُ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمْ : ان پر آئے بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : راتوں رات وَّهُمْ : اور وہ نَآئِمُوْنَ : سوئے ہوئے ہوں
کیا بستیوں کے لوگ اس بات سے بےخوف ہوگئے کہ آدھمکے ان پر ہمارا عذاب راتوں رات اور وہ سوئے پڑے ہوں
اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرآی اَنْ یَّاْتِیَہُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّھُمْ نَاْئَمُوْنَ ۔ اَوََاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَہُمْ بَاْسُنَا ضُحیً وَّھُمْ َیْلَعُبْوَنَ ۔ اَفاَمِنُُوْامَکْرَاللّٰہِ فَلَا یَاْ مَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُ وْنَ ۔ (الاعراف : 97، 99) ” کیا بستیوں کے لوگ اس بات سے بےخوف ہوگئے کہ آدھمکے ان پر ہمارا عذاب راتوں رات اور وہ سوئے پڑے ہوں یا بستیوں والے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان پر آجائے ہمارا عذاب دن دھاڑے اور وہ کھیل کود میں ہوں تو کیا وہ اللہ کی تدبیر سے بےخوف ہیں تو یاد رکھو کہ خدا کی تدبیر سے وہی لوگ بےخوف ہوتے ہیں جو نامراد ہونے والے ہوں “۔ دو مفہوم ان آیات کے مفہوم کے دو محمل ہوسکتے ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایک یہ کہ مشرکین مکہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھو جن معذب قوموں کا ذکر تم نے سنا ہے انھیں بار بار اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا لیکن انھوں نے سنی ان سنی کردی بجائے اپنی اصلاح کرنے کے پیغمبر کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور ہر طرح سے ان کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوشش کی ایسا لگتا تھا کہ انھیں اللہ کی طرف سے عذاب آنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے وہ برابر اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں میں کھوئے رہے۔ ذرا غور کرو کہ ان کی یہ بےخوفی اور ان کی یہ سرگرمیاں کیا انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔ نہ دن کے وقت ان کی سرگرمیاں کسی کام آئیں نہ راتوں کی نیندوں میں ڈوبے ہوئے ان کی بےفکری کسی کام آئی۔ کبھی اللہ کا عذاب ان کی بیخبر ی میں آیا تو بیخبر ی انھیں لے ڈوبی اور کبھی دنیوی سرگرمیوں میں کھو جانے کے باعث اس حد تک وہ نڈر ہوگئے کہ دن کے وقت خدا کا عذاب دھاڑتا ہوا آیا لیکن وہ اس کے بچائو کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے عذاب کا جو قانون ہے جو اللہ کے نبیوں کی دعوت کی تکذیب پر ہمیشہ بروئے کار آتا ہے وہ ایسا اٹل اور حتمی ہے کہ کوئی قوم کسی حال میں بھی ہو وہ بہرحال اس کی گرفت میں آکے رہے گی۔ اللہ کا عذاب بےامان ہوتاہے دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ اے مشرکینِ مکہ تم نے ان قوموں کا تذکرہ سن لیا جن پر خدا کا عذاب آیا تو کیا اب تم اس لیے اللہ کے عذاب سے بےخوف ہو کر اپنی مصروفیات میں مگن ہو کہ تم نے اس سے بچائو کی کوئی تدبیر سوچ لی ہے ! اور تم کیا یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ عذاب انہی پر آنا تھا سو آگیا ہم پر یہ عذاب کسی صورت میں نہیں آسکتا حالانکہ تم نے گزشتہ قوموں کی تاریخ میں اچھی طرح یہ بات سن لی ہے کہ کوئی قوم کتنی بھی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اور چاہے وہ اللہ کے دین سے کتنی بھی بےبہرہ کیوں نہ ہو وہ اللہ کی گرفت سے کبھی نہیں بچ سکتی۔ اس کے عذاب سے امان کسی کو نہیں وہ چاہے تو دن کو آسکتا ہے اور چاہے تو رات کو۔ اگر حقیقت یہ ہے تو تم آخر اس سے بےخوف ہو کر کس طرح اپنے معمولات میں کھوئے ہوئے ہو ؟ تمہارے سامنے یہ تاریخ اس لیے بیان کی جا رہی ہے کہ تم اس سے عبرت پکڑو اور اپنی زندگی درست کرنے کی کوشش کرو لیکن اگر تم اس سے کوئی سبق لینا نہیں چاہتے تو پھر تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اپنے انجام کی طرف سے یہ بےفکری اور اللہ کے عذاب سے بےخوفی یہ صرف اس قوم کا رویہ بنتی ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو اور جسے پروردگار نے دنیا اور آخرت کے اعتبار سے نامراد لوگوں میں لکھ دیا ہو اور یہ بھی تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی طرف سے جب گرفت آتی ہے تو وہ اتنی مخفی اور اس قدر دھیمے انداز میں آتی ہے کہ اس کی آہٹ تک سنائی نہیں دیتی اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب اس کا نشانہ بننے والی قوم پوری طرح اس گرفت میں آچکی ہوتی ہے۔ یہ بنیادی بات سمجھانے کے بعد پھر براہ راست خطاب کیا گیا ہے مشرکین مکہ سے اور ایک طرح سے ان پر اتمام حجت کیا جا رہا ہے۔ ارشاد فرمایا :
Top