Ruh-ul-Quran - An-Naba : 18
یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًاۙ
يَّوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک مار دی جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَتَاْتُوْنَ : تو تم آؤ گے اَفْوَاجًا : فوج در فوج
جس روز صور میں پھونکا جائے گا تو تم آئو کے فوج در فوج
یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَا تُوْنَ اَفْوَاجًا۔ وَّفُتِحَتِ السَّمَآئُ فَـکَانَتْ اَبْوَابًا۔ وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَـکَانَتْ سَرَابًا۔ اِنَّ جَھَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا۔ لِّلطَّاغِیْنَ مَاٰ بًا۔ لّٰبِثِیْنَ فِیْھَـآ اَحْقَابًا۔ لاَ یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلاَ شَرَابًا۔ اَلاَّ حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا۔ جَزَآئً وِّفَاقًا۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا لاَ یَرْجُوْنَ حِسْابًا۔ وَّکَذَّبُوْا بِاٰ یٰـتِنَا کِذَّابًا۔ وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰـہُ کِتٰـبـًا۔ فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلاَّ عَذَابًا۔ (النبا : 18 تا 30) (جس روز صور میں پھونکا جائے گا تو تم آئو کے فوج در فوج۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا تو وہ دروازے دروازے بن کر رہ جائے گا۔ اور پہاڑ چلا دیئے جائیں گے تو وہ بالکل سراب بن کر رہ جائیں گے۔ بیشک جہنم گھات میں ہے۔ سرکشوں کا ٹھکانا۔ اس میں وہ مدتوں رہیں گے۔ اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ نہ چکھیں گے۔ بجز گرم پانی اور زخموں کے دھو ون کے۔ بدلہ ان کے عمل کے موافق۔ وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے۔ اور انھوں نے ہماری آیات کی بےدریغ تکذیب کی۔ اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے۔ اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی اور چیز میں ہرگز اضافہ نہ کریں گے۔ ) قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا منظر جس یوم الفصل کا وقت مقرر کردیا گیا ہے اور جس کے آنے میں مشرکین بہت تذبذب کا شکار ہیں اور وہ مختلف پہلوئوں سے اسے مستبعدازعقل قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اس کے برپا ہونے میں کوئی بڑا وقت صرف نہیں ہوگا اور نہ پروردگار کو اس میں کوئی دشواری پیش آئے گی۔ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) صور منہ میں لیے حکم کے انتظار میں ہیں۔ یہ صور کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے یہ متشابہات میں سے ہے، اللہ تعالیٰ ہی اسے جانتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کو اس میں پھونک مارنے کا حکم دیا جائے گا تو پھونک مارتے ہی ایک بڑی ہلچل مچے گی۔ تمام مرے ہوئے انسان یکایک جی اٹھیں گے اور فوج در فوج اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ اور یہ آسمان جو آج گنبدبے در نظر آتا ہے اس دن اس طرح اسے کھول دیا جائے گا کہ ہر طرف اس میں دروازے ہی دروازے نظر آئیں گے۔ یعنی عالم بالا میں کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی اور ہر طرف سے آفاتِ سماوی ہجوم کرکے دنیا پر حملہ آور ہوں گی۔ اور وہ پہاڑ جن کے استحکام کو دیکھتے ہوئے اہل مکہ کو قیامت کے آنے کا یقین پیدا نہیں ہوتا تھا وہ اس دن اکھاڑ کر چلا دیئے جائیں گے۔ یعنی آج وہ ٹھوس پتھر ہیں لیکن اس دن ریت بن کر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور ریزہ ریزہ ہو کر ہر طرف پھیل جائیں گے۔ سورة طٰہٰ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے، ان سے کہئے، میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا۔ اور زمین کو ایسا ہموار اور چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے۔ (آیت 105 تا 107) یہاں فرمایا گیا ہے کہ پہاڑوں کو سراب بنادیا جائے گا۔ سراب سے مراد ریت ہے جو صحرا میں دور سے انسان کو دکھائی دیتی ہے اور وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ وہاں کوئی بہتا ہوا پانی ہے۔ اس ہلچل اور افراتفری کے بعد اچانک جہنم نمودار ہوجائے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ وہ سرکشوں کا ٹھکانہ بننے کے لیے اس ہلچل کی آڑ میں گھات ہی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اور شاید اسی لیے بعض جگہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جہنم خاص قسم کے مجرموں کو پہچانے گی اور انھیں دیکھ کر وہ اس طرح جوش میں آئے گی کہ اس کی دھاڑ دور تک سنائی دے گی۔ اور پکارنے والا کہے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا تمہیں دنیا میں یقین نہیں آتا تھا۔ میدانِ حشر میں ایمان و عمل کے فیصلے کے بعد یہی جہنم سرکشوں کا ٹھکانہ بنے گی۔ چناچہ ہر کافر و مشرک اور ہر باغی و طاغی اپنے اپنے جرائم کے مطابق جہنم میں ڈالا جائے گا اور وہ مدت ہائے دراز تک اس میں رہے گا۔ آیت میں ” احقاب “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ ” حقب “ کی جمع ہے جس کا اطلاق طویل زمانے پر ہوتا ہے۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی اور دوام ہوگا اور اس کے تسلسل میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔ لیکن جہنم میں ہمیشگی نہیں ہوگی، جہنم بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں لیکن مدتوں کا لفظ خود بتلاتا ہے کہ وہ لامتناہی نہیں، لیکن یہ خیال غلط ہے۔ ہر چیز کے سمجھنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے جسے اہل علم قاعدہ کلیہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مجمل کو سمجھنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ مجمل کی شرح مفصل کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ البتہ مفصل کی شرح مجمل کی روشنی میں نہیں کی جاتی۔ قرآن کریم نے جہنم کی سزا کو خُلُوْدفِی النَّار سے تعبیر کیا ہے اور کئی جگہ یہ الفاظ آئے ہیں خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا یہ الفاظ مفصل ہیں۔ اسی کی روشنی میں ” احقاب “ کی وضاحت کی جائے گی۔ واضح ہے کہ اس کا مطلب ہمیشہ ہمیشہ جہنم کا قیام ہوگا نہ کہ ایک طویل مدت جو ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اہل جہنم شدید عذاب کے باوجود کھانے پینے سے بےنیاز نہیں ہوں گے، انھیں بھوک اور پیاس لگے گی لیکن اس میں پینے کو گرم کھولتا ہوا پانی اور کھانے کو ” غساق “ ملے گا۔ اہل لغت نے ” غساق “ کی تشریح پیپ اور لہو سے بھی کی ہے اور گندے پانی سے بھی۔ اور بعض اہل لغت کچ لہو اور آنکھوں اور کھالوں سے بہنے والی ان تمام رطوبتوں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں جو شدید تعذیب کی وجہ سے بہ نکلتی ہیں۔ اور یہ لفظ ایسی چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس میں سخت تعفن اور سڑاند ہو۔ جہنم کی اس ہولناک وادی میں اہل جہنم کو کہیں ٹھنڈک کا احساس تک نہیں ہوگا۔ نہ پینے کو کوئی ایسی چیز ملے گی جسے پینے کے قابل کہا جاسکے۔ اور یہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوگا یہ ان کے اعمال ہی کا پورا پورا بدلہ ہوگا۔ جو کچھ دنیا میں انھوں نے کمائی کی اسی کا انجام وہ جہنم میں دیکھیں گے۔ آخرت میں ہر نیکی فطرت کے لحاظ سے اپنا پھل لائے گی اور ہر برائی اپنی مکروہ شکل اختیار کرے گی۔ پھر اس برے انجام تک پہنچنے کا جو اصل سبب ہے اس کو بیان فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کا گمان یہ تھا کہ ہم جیسی کیسی زندگی گزار رہے ہیں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ اور جو کچھ قرآن کریم میں قیامت کا یقین پیدا کرنے کے لیے آیات نازل ہوئیں اور جو کچھ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کا نہایت برے طریقے سے انھوں نے انکار کیا۔ اور جن لوگوں نے نہایت ہمدردی اور خیرخواہی سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی ان کی جان کے لاگو ہوگئے۔ اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو یہ سمجھتے تھے کہ نہ قیامت آئے گی نہ ان کا حساب کتاب ہوگا۔ لیکن ہم نے ان کے اقوال و افعال، ان کی حرکات و سکنات حتیٰ کہ ان کی نیتوں اور خیالات اور مقاصد تک کا مکمل ریکارڈ تیار کر رکھا تھا۔ جو کچھ انھوں نے دنیا میں کیا اور کہا ہم نے کوئی بات بھی ریکارڈ میں درج کرنے سے چھوڑی نہیں۔ آخر میں فرمایا کہ تم تو اپنے انجام سے بیخبر رہے لیکن ہم نے تمہارے اعمال محفوظ کرنے میں کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ اب تم اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔ اور ساتھ ہی یہ چتائونی بھی سنا دی کہ اب اس کی امید مت رکھو کہ تمہارے عذاب میں کوئی کمی ہوگی یا کوئی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ ہاں اگر کوئی تبدیلی عمل میں آئی تو وہ صرف یہ ہوگی کہ تمہارے عذاب یا عذاب کی نوعیت میں اضافہ کردیا جائے گا۔
Top