Ruh-ul-Quran - An-Naba : 2
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِۙ
عَنِ النَّبَاِ : اس خبر کے بارے میں الْعَظِيْمِ : جو بڑی ہے
اس بڑی خبر کے بارے میں
عَنِ النَّـبَاِ الْعَظِیْمِ ۔ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ ۔ (النبا : 2، 3) (اس بڑی خبر کے بارے میں۔ جس میں وہ خود اختلاف رکھتے ہیں۔ ) قیامت کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے نَـبَا …کسی بڑے واقعہ یا اہم خبر کو کہتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے اس لفظ کی معنویت کو نمایاں کرنے کے لیے تاکہ اس کے مصداق کی اہمیت دلوں میں اتر جائے العظیم کی صفت بھی ذکر فرمائی ہے۔ یعنی وہ خبر جس کے بارے میں یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کررہے ہیں وہ بہت بڑی خبر ہے۔ مراد اس سے آخرت ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اتنی بڑی اور اہم خبر جسے سن کر سینہ شق اور جگر پھٹ جانا چاہیے اور جس کی فکر سے خواب و خور کی لذت جاتی رہنی چاہیے یہ شامت زدہ لوگ اسی کو طنزومزاح کا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ قرآن کریم نے جس لب و لہجہ اور اندازِ بیان کی سطوت وہیبت اور دلائل کی قطعیت کے ساتھ آخرت کا ذکر کیا تو جس نے بھی ان سورتوں کو سنا وہ متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ قریش کی مجلسوں میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ قریش نے محسوس کیا کہ اگر اس خبر کا اثر عوام میں پھیل گیا تو اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ چناچہ انھوں نے عوام کو اس کے اثر سے بچانے کے لیے جہاں اور بہت سی احمقانہ تدبیریں اختیار کیں وہاں یہ حماقت بھی کی کہ اپنی مجالس میں اس کو اپنے مذاق اور طبع آزمائی کا موضوع بنا لیا، تاکہ لوگ اسے کسی سنجیدہ موضوع کے طور پر لینے کی کوشش نہ کریں۔ کوئی یہ کہتا کہ کیا یہ بات ماننے کے قابل ہے کہ گل سڑ کر جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوچکی ہیں ان میں نئے سرے سے جان پڑے گی۔ کسی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں۔ کوئی حیران ہو کر کہتا کہ بھلا یہ بھی کوئی ماننے کی بات ہے کہ ایک دن سورج، چاند اور ستارے سب بجھ کر رہ جائیں اور دنیا کا یہ سارا نظام الٹ پلٹ ہوجائے۔ کبھی وہ جنت و دوزخ کا مذاق اڑانے لگتے کہ وہ کیسی دوزخ ہے جس میں آگ بھی ہے اور پانی بھی۔ اور جس میں درخت بھی کھڑے ہیں۔ اور قرآن کریم نے کہیں کہیں جہنم کے بعض احوال کا ذکر کیا ہے بعض لوگ اس کو تمسخر کا موضوع بناتے۔ یہ ہیں آپس کی وہ چہ میگوئیاں اور آپس کی پوچھ گچھ جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ کیسے بےفکرے ہیں کہ انھیں ایک عظیم خبر کی اطلاع دی گئی ہے اور یہ اس کے بارے میں اس طرح ایک دوسرے سے باتیں کررہے ہیں جیسے وہ کوئی تفریح کا موقع ہو۔ اور حال یہ ہے کہ ان باتوں میں خود وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خود بھی دنیا کے انجام کے بارے میں یکساں رائے نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے انجام اور آخرت کے بارے میں ان کے درمیان مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح سے ان میں فکری تناقض بھی ہے اور اختلافِ رائے بھی۔ ان میں سے بعض لوگ عیسائیوں کے خیالات سے متأثر ہیں۔ اور وہ آخرت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے جسمانی نہیں بلکہ روحانی قرار دیتے ہیں۔ اور بعض لوگ قطعی انکار تو نہیں کرتے لیکن انھیں قیامت کے آنے کا یقین بھی نہیں۔ قرآن کریم نے ان کے خیال کو نقل کرتے ہوئے فرمایا اِنْ نَّظُنُّ اِلاَّظَنًّا وَّمَانَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ ” ہم سب ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں۔ “ (الجاثیہ۔ 31) اور بعض لوگ اس کا بالکل انکار کرتے تھے کہ ہم ہرگز مرنے کے بعد اٹھائے نہیں جائیں گے۔ بعض لوگ دہریئے تھے، یعنی وہ دہر اور زمانے ہی کو اصل موثر مانتے تھے۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کو تسلیم کرتے تھے لیکن دوسری زندگی کو ناممکن قرار دیتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں ان کا خیال یہ تھا کہ وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ اور دلیل یہ دیتے تھے کہ جو ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں انھیں کون دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ غرضیکہ زندگی کے خاتمے اور دنیا کے انجام کے بارے میں یکسو نہیں تھے۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ نے آخرت کے عقیدے کو پیش فرمایا اور اسے عملی زندگی میں تبدیلی کے لیے نہایت اہم قرار دیا، تو انھوں نے اس کے اثر کو روکنے کے لیے اسے تمسخر کا موضوع قرار دینے کی کوشش کی۔ حالانکہ عقل اور فطرت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ انسان کو زندگی کے کسی ایسے معاملے میں اگر ذہنی یکسوئی حاصل نہ ہو جس میں اس کی ابدی فلاح یا ابدی ہلاکت کا راز مضمر ہے تو ایسے لوگوں کی بات توجہ سے سنے جو اس کے تضادفکر سے اس کو آگاہ کررہے ہیں۔ قرآن کریم کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے انھیں اس تضاد و اختلاف سے نکلنے کی راہ دکھائی۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی قدر کرتے۔ لیکن انھوں نے اپنی بدبختی سے اسے غیرسنجیدہ موضوع بنادیا۔
Top