Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے نبی ! کہہ دیجئے ان سے جو آپ ہاتھوں میں قیدی ہیں، اگر اللہ تمہارے دلوں میں کوئی بھلائی پائے گا تو جو کچھ تم لیا گیا ہے اس سے بہتر تم کو وہ عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓیلا اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًامِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ وَاِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْھُمْطوَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ (الانفال : 70، 71) اے نبی ! کہہ دیجئے ان سے جو آپ کے ہاتھوں میں قیدی ہیں، اگر اللہ تمہارے دلوں میں کوئی بھلائی پائے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تم کو وہ عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اور اگر یہ تم سے بد عہدی کریں گے تو اس سے پہلے انھوں نے اللہ سے بد عہدی کی تو اللہ نے تم کو ان پر قابو دے دیا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ بدر کے قیدیوں سے خطاب ان آیات کریمہ میں جنگ بدر میں پکڑے قیدیوں سے آنحضرت ﷺ کے واسطے سے خطاب فرمایا جارہا ہے۔ جس میں ان کے لیے ایک پیغام بھی ہے اور دھمکی بھی۔ پیغام یہ ہے کہ تمہاری واضح اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے اسلام کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کی اذیت رسانی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تمہارے لگائے ہوئے زخم ابھی تک مسلمانوں کے دلوں پر تازہ ہیں اور پھر جنگ بدر کی صورت میں تمہارا حملہ بجائے خود مسلمانوں کے استیصال کے لیے تھا تم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ تمہیں ایسی رسوا کن ہزیمت سے واسطہ پڑے گا۔ تمہاری تاریخ اور تمہارے کارنامے باربار سفارش کررہے ہیں کہ تمہیں زندہ نہ چھوڑا جائے اور اگر تمہیں زندہ چھوڑا گیا تو تم واپس جاکر اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے سوا اور کچھ نہیں کروگے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ کے نبی اور اس کے ساتھیوں نے تم سے فدیہ لے کر آزاد کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ اور ایسا احسانِ عظیم ہے جس کا تصور بھی تمہارے دلوں میں نہیں گزرا ہوگا۔ لیکن یہ احسان تم پر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اندازہ ہوجائے کہ اسلام دنیا میں گردنیں کاٹنے اور ملکوں پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ اس کے پیش نظر ایک ایسا انقلاب ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اندر تبدیلی آئے اور وہ اپنے کفر وجحود اور غفلت سے نکل کر اللہ کے آستانے پر جھک جائے اور وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرکے دنیا اور آخرت کی تباہی سے بچ جائے۔ تمہیں زندہ رہنے کا موقعہ اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم آزاد ہو کر آزادانہ سوچ کے بعدخوش دلی سے یہ فیصلہ کرو کہ اسلام اور اللہ کی اطاعت بہتر ہے یا کفر اور شرک ؟ اور پھر اگر تم صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤ تو یاد رکھو ! ایک طرف تو اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم سے آزادی دے کر جنت کا وارث بنا دے گا اور دوسری طرف فدیہ کی صورت میں جو کچھ تم سے حقیر مال لیا گیا ہے اس سے بہت زیادہ تمہیں واپس کرے گا۔ چناچہ جن لوگوں نے اس کے بعد اسلام قبول کیا اس میں سے ایک ایک شخص کی زندگی اس سچائی کی منہ بولتی تصویر تھی اور حضرت عباس ( رض) کا واقعہ جو مفسرین نے اس آیت کے شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے وہ بجائے خود اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ حضرت عباس ( رض) بھی بدر کے قیدیوں میں شامل تھے چناچہ جب ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے آنحضرت ﷺ سے گزارش کی کہ میں اپنے ساتھ سات سوگنی سونا لے کر آیا تھا جو مسلمانوں نے میری گرفتاری کے وقت مجھ سے لے لیا۔ آپ فدیہ کی رقم میرے اس مال میں سے کاٹ لیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ یہ مال کفر کی مدد اور کافروں پر خرچ کرنے کے لیے لائے تھے چناچہ آپ کی گرفتاری کے ساتھ وہ مال بھی مال غنیمت بن گیا اب وہ مال مسلمانوں کا ہے آپ کا اس پر کوئی حق نہیں۔ مزید فرمایا کہ آپ کے دو بھتیجے بھی مسلمانوں کی قید میں ہیں، عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث، ان دونوں کا فدیہ بھی آپ ادا کیجئے کیونکہ وہ اپنے طور پر فدیہ ادا نہیں کرسکتے اور آپ ان کے ولی اور بزرگ ہیں اس لیے آپ کو ان کا زرِ فدیہ ادا کرنا چاہیے۔ حضرت عباس ( رض) نے کہا کہ اگر آپ اتنا مالی بار مجھ پر ڈالیں گے تو مجھے واپس جا کر قریش سے بھیک مانگنا پڑے گی کیونکہ میں اس کے بعد بالکل فقیر ہوجاؤں گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے مکہ سے روانگی کے وقت جو مال اپنی زوجہ ام الفضل کو دیا تھا وہ مال بھی تو آپ کا ہے۔ حضرت عباس نے حیران ہو کر کہا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ کیونکہ میں نے وہ مال رات کی تاریکی اور تنہائی میں اپنی بیوی کے سپرد کیا تھا، کوئی تیسرا آدمی اسے دیکھنے والا نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے اس کی تفصیل بتائی ہے۔ حضرت عباس ( رض) جو پہلے ہی آپ سے مخلصانہ تعلق رکھتے تھے یہ جواب سن کر ان کی عقیدت میں اور اضافہ ہوگیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ آپ اسی وقت اسلام کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے لیے مشکل یہ تھی کہ ان کا بہت سا روپیہ قریش کے ذمہ قرض تھا۔ اگر وہ اس وقت مسلمان ہونے کا اعلان کردیتے تو وہ روپیہ مارا جاتا اور مزید یہ بات بھی کہ آنحضرت ﷺ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی قیدی قید سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے۔ فتح مکہ سے پہلے حضرت عباس ( رض) نے ایک دفعہ پھر اپنے اسلام کے اظہار اور ہجرت کی آنحضرت ﷺ سے اجازت چاہی لیکن آپ نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ آپ مکہ میں رہیں تاکہ ہمیں قریش کے حالات کی اطلاع ملتی رہے۔ قرآن کریم کا یہ پیغام کہ قیدیوں سے جو کچھ لیا گیا ہے اس سے بہت بہتر ان کو دیا جائے گا اس کے بارے میں حضرت عباس ( رض) کہتے ہیں کہ میں تو اس وعدہ کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں کیونکہ مجھ سے بیس اوقیہ سونا فدیہ میں لیا گیا تھا۔ اس وقت میرے بیس غلام مختلف جگہوں میں تجارت کر رہے ہیں اور کسی کا کاروبار بیس ہزار درہم سے کم نہیں ہے اور اس پر مزید انعام یہ ہے کہ مجھے حجاج کو آب زم زم پلانے کی خدمت سپرد کی گئی ہے جو میرے نزدیک ایسا گراں قدر کام ہے کہ سارے مکہ کے اموال بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ دوسری آیت کریمہ میں مسلمانوں کے ایک خدشے کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قیدی آزادی کے بعد وطن جاکر اپنے وعدوں کا ایفا نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے احسانات کو یکسر نظرانداز کرکے پھر مسلمانوں کی دشمنی اور اسلام کو نقصان پہنچانے کا کام شروع کردیں گے تو اس سلسلہ میں میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے اور قیدیوں کو دھمکی دی گئی ہے۔ تسلی کا مضمون یہ ہے کہ اگر یہ آپ سے واپس جاکرخیانت کریں اور آپ کے احسانات سے یکسر بےوفائی برتیں تو اس میں نئی بات کیا ہے ؟ یہ تو پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں۔ اللہ نے ان پر کیسے کیسے احسانات کیے، انھیں حرم کا مکین بنایا، حرم کی پاسبانی ان کے حوالے کی، ملتِ ابراہیم کی وراثت ان کے سپرد کی گئی۔ انھوں نے نہ حرم کے تقدس کا خیال کیا اور نہ ملت ابراہیمی کے بگاڑ سے باز آئے۔ بدر میں جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہوا یہ اسی بےوفائی کی پہلی سزا ہے اور اگر اب بھی یہ اس طرز عمل سے باز نہ آئے تو اے پیغمبر ! یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ہم نے جس طرح پہلے آپ کو ان پر حاوی کیا اور انھیں آپ کے قابو میں دے دیا اسی طرح آئندہ بھی ہم آپ کو ان پر غالب رکھیں گے۔ لیکن ہم انھیں زندگی دے کر انھیں سنبھلنے کا ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں تاکہ اگر وہ چاہیں تو اپنی زندگی بھی بنالیں اور آخرت بھی۔
Top