Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 111
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ١۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
اشْتَرٰي
: خرید لیے
مِنَ
: سے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
اَنْفُسَھُمْ
: ان کی جانیں
وَاَمْوَالَھُمْ
: اور ان کے مال
بِاَنَّ
: اس کے بدلے
لَھُمُ
: ان کے لیے
الْجَنَّةَ
: جنت
يُقَاتِلُوْنَ
: وہ لڑتے ہیں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
فَيَقْتُلُوْنَ
: سو وہ مارتے ہیں
وَيُقْتَلُوْنَ
: اور مارے جاتے ہیں
وَعْدًا
: وعدہ
عَلَيْهِ
: اس پر
حَقًّا
: سچا
فِي التَّوْرٰىةِ
: تورات میں
وَالْاِنْجِيْلِ
: اور انجیل
وَالْقُرْاٰنِ
: اور قرآن
وَمَنْ
: اور کون
اَوْفٰى
: زیادہ پورا کرنیوالا
بِعَهْدِهٖ
: اپنا وعدہ
مِنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
فَاسْتَبْشِرُوْا
: پس تم خوشیاں مناؤ
بِبَيْعِكُمُ
: اپنے سودے پر
الَّذِيْ
: جو کہ
بَايَعْتُمْ
: تم نے سودا کیا
بِهٖ
: اس سے
وَذٰلِكَ
: اور یہ
ھُوَ
: وہ
الْفَوْزُ
: کامیابی
الْعَظِيْمُ
: عظیم
(بےشک اللہ نے خرید لیے ہیں مو منوں سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے میں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ اللہ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے۔ تورات، انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو۔ بس تم خو شیاں منائو اس سودے پر جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کا میابی ہے
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فیِ التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْابِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖط وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ (التوبہ : 111) (بےشک اللہ نے خرید لیے ہیں مو منوں سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے میں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ اللہ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے۔ تورات، انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو۔ بس تم خو شیاں منائو اس سودے پر جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ) سورة توبہ میں سب سے پہلے ان لوگوں سے براءت کا اظہار کیا گیا ہے۔ جو اللہ کی اصل حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور وہ اپنی حیوانی زندگی پر قانع رہ کر شرفِ انسانی کو پامال کرچکے ہیں۔ نہ انھیں اللہ کی الوہیت سمجھ آتی ہے اور نہ اپنی عبدیت کا ادراک ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے۔ جو اللہ کی الوہیت کو تسلیم کرتے اور اپنی بندگی کا اقرار کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایمان سے کوسوں دور ہیں۔ اس تنقید میں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کی گئی ہے اور بصورتِ دیگر انہیں ان کے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان نام نہاد مومنوں یعنی منافقوں پر وہ اصل حقیقت واضح کی جا رہی ہے۔ جس سے تغافل کے باعث یہ لوگ حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ منافق چونکہ ایمان اور اس کے تقاضوں سے متعلق یکسو نہیں ہوتا اس لیے کبھی وہ مال کی محبت میں ڈوب کر کبھی اولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر اور کبھی راہ حق میں پیش آنے والی قربانیوں سے گھبرا کر نفاق میں پناہ لیتا ہے۔ اس آیت میں اس کے سامنے مومن کی اصل حقیقت واضح کی جارہی ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ بندے اور اس کے خدا کے درمیان وہ رشتہ کیا ہے جس کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے ایمان کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ وہ حقیقت اور وہ رشتہ یہ ہے کہ آدمی جب کلمہ پڑھ کر اللہ کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے۔ تو وہ دراصل اللہ سے معاہدہ کرتا ہے۔ اس کی حیثیت صرف ایک عقیدہ کی نہیں ہوتی بلکہ عہدو پیمان کی ہوتی ہے۔ جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کرلیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرئے گا۔ شانِ نزول (حسب تصریح اکثر حضرات مفسّرین، یہ آیات بیعت عقبہ کے شرکاء کے معتلق نازل ہوتی ہے جو ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں انصار مدینہ سے لی گئی تھی اسی لیے پوری سورت کے مدنی ہونے کے باوجود ان آیات کو مکی کہا گیا ہے، عقبہ پہاڑ کے حصہ کو کہا جاتا ہے اس جگہ وہ عقبہ مراد ہے جو منی میں جمرہ عقبہ کے ساتھ پہاڑ کا حصہ ہی (آجکل حجاج کی کثرت کے سبب پہاڑ کا یہ حصہ صاف کرکے میدان بنادیا گیا ہے صرف جمرہ رہ گیا ہی اس عقبہ پر مدینہ طیبہ کے حضرات سے تین مرتبہ بیعت لی گئی ہے پہلے بعثت نبوی سے گیارہویں سال میں ہوئی جس میں چھ حضرات مسلمان ہو کر بیعت کر کے مدینہ واپس ہوئے تو مدینہ کے گھر گھر میں رسول ﷺ اور اسلام کا چرچاہونے لگا اگلے سال موسم حج میں بارہ حضرات اسی جگہ جمع ہوئے جن میں پانچ پہلے اور سات نئے تھے سب نے بیعت کی اب مدینہ میں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہوگی جو چالیس نفر سے زائد تھی، انھوں نے درخواست کی کہ ہمیں قرآن پڑھانے کے لیے کسی کو بھیج دیا جائے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ( رض) کو بھیج دیا انھوں نے موجودہ مسلمانوں کو قرآن بھی پڑھایا اور اسلام کی تبلیغ بھی کی جس کے نتیجہ میں مدینہ کی بڑی جماعتیں اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں۔ اس کے بعد بعثت نبوی ﷺ کے تیر ہویں سال میں ستر مرد و عورتیں اسی جگہ جمع ہوئے یہ تیسری بیعت عقبہ جو آخری ہے اور عموماً بیعت عقبہ سے یہی بیعت مراد ہوتی ہے یہ بیعت اسلام کے اصولی عقائد و اعمال کے ساتھ خصوصی طور پر کفار سے جہاد اور جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ کی حفاظت و حمایت پر لی گئی، اس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ ( رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس وقت معاہدہ ہورہا ہے۔ آپ جو شرائط اپنے رب کے متعلق یا اپنے متعلق کرنا چاہیں وہ واضح کردی جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے لے توبہ شرط رکھتا ہوں کہ آپ سب اس کی عبادت کریں گ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور اپنے لیے یہ شرط ہو کہ میری حفاظت اس طرح کریں گے جیسے اپنی جانوں اور اپنے اموال و اولاد کی حفاظت کرتے ہو، ان لوگوں نے دریافت کیا کہ اگر ہم یہ دونوں شرطیں پوری کردیں تو ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا ؟ آپ ﷺ فرمایا جنت ملے گی، ان سب حضرات نے خوش ہو کر کہا کہ ہم اس سودے پر راضی ہیں اور ایسے راضی ہیں کہ اب اس کو نہ خود فسخ کرنے کی درخواست کریں گے نہ اس کے فسخ کرنیکو پسند کریں گے) ۔ اللہ اور بندوں کے مابین بیع و شراء کی حقیقت اور مقتضیات بیع و شراء دراصل ایک معاہدہ ہے جس میں آدمی اپنی ایک چیز دیتا ہے اور دوسرے سے ایک چیز لیتا ہے۔ لینے والا مشتری ( خریدار) کہلاتا ہے اور دینے والا با ئع ( بیچنے والا) کہلاتا ہے۔ چناچہ جب یہ سودا مکمل ہوجاتا ہے۔ تو پیچنے والے کو اپنی پیچی ہوئی چیز پر کوئی اختیار نہیں رہتا بلکہ اب اس چیز پر خریدار کے حقوق تسلیم کیئے جاتے اور ثابت ہوجاتے ہیں اور پیچنے والے کو اس کے بدلے میں جو چیز میسر آتی ہے۔ اب اس کے اختیارات اس سے متعلق ہوجاتے ہیں۔ یہاں بیچنے والا انسان ہے۔ وہ اپنی جان اور اپنا مال اور اپنے زیر ملکیت تمام چیزیں اور تمام اختیارات اللہ کے حوالے کردیتا ہے اور یہ وعدہ کرتا ہے کہ آج سے میں ان چیزوں پر اپنے اختیارات سے دستبردار ہوتا ہوں اور اللہ کے اختیارات کو تسلیم کرتا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں میں نے یہ سب کچھ جنت کے بدلے میں بیچ دیا ہے۔ میری زندگی اور میرے اختیارات کی آخری حد چونکہ موت ہے۔ اس لیے میں نے جو چیز بیچی ہے۔ اس کی سپردگی اور تفویض زندگی کے آخری سانس تک مکمل ہوگی۔ اس کے بدلے میں مجھے جنت اس وقت ملے گی۔ جب میری طرف سے تفویض کا عمل مکمل ہوجائیے گا۔ اس میں چند باتیں نہایت حیران کن بھی ہیں اور انسان کے لیے باعث شرف بھی۔ پہلی بات یہ کہ انسان ایک معمولی مخلوق ہے۔ مخلوقات میں بھی اس سے بدرجہا عظیم اور جلیل چیزیں موجود ہیں۔ انسان کی حیثیت ان کے مقابلے میں مشت خاک سے زیادہ نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے مقابلے میں ایک اشتراک بھی ہے کہ دونوں مخلوق ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے کسی اشتراک کا تصور بھی گناہ سے کم نہیں۔ وہ خالق ِ کائنات ہے اور انسان ایک ادنی مخلوق، لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ساتھ ایک معاہدہ کا حق دیتا ہے اور مزید کہ جس طرح وہ اس پر ایک ذمہ داری ڈالتا ہے اسی طرح خود بھی ایک ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ دوسری یہ بات کہ انسان جو کچھ اللہ کے حوالے کر رہا ہے۔ وہ اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی عطا اور اس کی دین ہے۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے انسان سے جو کچھ لے رہا ہے۔ اسے انسان کی ملکیت قرار دے رہا ہے تاکہ یہ معاہدہ ٹھیک ہو سکے کیونکہ جانبین میں سودا طے پانے کے لیے ضروری ہے کہ جن دو چیزوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ وہ دونوں کی ملکیت ہو اور زیر قبضہ ہو اور تیسری چیز جو انسان کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں کہ انسان جو کچھ اس سودے میں دے رہا ہے۔ وہ فانی ہے اور وہ کسی بھی وقت ختم ہوجانے والا ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں جو جنت لے رہا ہے۔ وہ باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ان اعزازت کے ساتھ انسانی شرف کو ایسی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے جس سطح تک کسی دوسری مخلوق کی رسائی نہیں۔ آیت کریمہ میں مبیع انسان کے نفس اور مال کو قراردیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں لیکن حقیقت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے جسم و جان اور اپنی زیر تصرف چیزوں میں اختیار عطا فرمایا ہے۔ یعنی اس کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ یہ جسم بھی تمہارا ہے یہ جان بھی تمہاری ہے اور اس سے متعلقات بھی تمہارے ہیں۔ تمہیں ہم نے ان چیزوں میں اختیار عطا فرمایا ہے۔ تم اپنی مرضی کے مالک ہو۔ تم اپنے جسم اور اپنی جان کو جہاں چاہو اور جیسے چاہو استعمال کرو۔ دل و دماغ کی قوتوں کو جہاں چاہو صرف کرو۔ جس کے حق میں چاہو کھپا دو اور جس کے خلاف چاہو لڑا دو اپنے اقتدار اور رسوخ کی قوت سے جو چاہو عطا کردو اور جو چاہو چھین لو۔ اپنے حواس اور اپنی عقل کو جیسے چاہو استعمال کرو۔ اسی طرح تم اپنے مال میں بھی آزادانہ تصرف کا حق رکھتے ہو۔ چاہے اسے انسانیت کی خدمت میں صرف کرو اور چاہے اسے بےدینی کے فروغ میں استعمال کرو اور چاہے اسے سفلی جذبات کی نذر کردو۔ میں یہ تمہارا حق تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن میں تم سے ایک سودا کرنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے تمام اختیارات سے میرے حق میں دستبر دار ہوجاؤ۔ تم یہ تسلیم کرلو کہ آج کے بعد تم اپنے دل و دماغ کے مالک نہیں بلکہ امین ہو۔ تمہارا مال تمہارا نہیں بلکہ اللہ کا ہے اور تمہارے پاس امانت ہے۔ تم اپنے دل و دماغ اپنی قوتوں اور اپنے مال و دولت کو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال میں لائو گے۔ تم ہر وہ کام نہیں کرو گے۔ جس میں تمہاری مرضی اور تمہارے نفس کی رضا ہو۔ بلکہ تم ہر کام میں اللہ کی رضا چاہو گے۔ تم ہر قدم پر اللہ کے احکام کی پابندی کرو گے۔ جب تک تم زندہ ہو۔ تم اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارو گے اور اگر کبھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ زندگی اللہ کے راستے میں قربان کردو۔ تو تمہیں اپنی زندگی بچانے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ بلکہ تم آرزو کرو گے کہ کب وہ وقت آتا ہے۔ جب میں اس بار امانت سے فارغ ہوجاؤں۔ تمہیں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائے گا۔ اگرچہ قرآن و سنت میں اچھی زندگی اور دنیا کی سرافرازیوں کے بھی وعدے کیے گئے ہیں لیکن حقیقی وعدہ جو اس آیت میں کیا گیا ہے۔ وہ جنت عطا کرنے کا ہے اور یہ جنت آخرت میں دی جائے گی۔ کیونکہ جنت کا دیا جانا انسانی زندگی کے تمام اعمال اللہ کی رضا کے مطابق گزانے پر موقوف ہے۔ زندگی کے اعمال کے خاتمہ کے ساتھ ہی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اب اس کے بدلے کا وصول کرنا چونکہ آخرت ہی میں ممکن ہے۔ اس لیے اسے آخرت پر اٹھا رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے ذہین میں یہ خیال پیدا ہو کہ مستقبل کے وعدوں پر کون بھروسہ کرے۔ انسان سے جو کچھ لیا جارہا ہے۔ وہ نقد ہے اور جس کا وعدہ ہے وہ اس دنیا میں بھی نہیں آخرت میں ہے۔ جس کا وجود بجائے خود ایمان کا امتحان ہے۔ اس سلسلے میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ پہلی بات یہ کہ یوں تو افراد کی شہادتیں بھی قابل اعتبار ہوتی ہیں۔ لیکن اگر افراد کی بجائے مختلف اقوام اور مختلف مذاہب مختلف زمانوں میں کسی بات کی شہادت دیں۔ تو کوئی ثقہ آدمی اس کی قبولیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے فرمایا گیا یہ وہ وعدہ ہے جو اللہ نے ہزاروں سال پہلے تورات میں کیا۔ پھر اس کا ذکر انجیل میں آیا اور اب اس کو قرآن کریم میں دہرایا جارہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کا تو ذکر ہی فضول ہے۔ البتہ جو لوگ اللہ کے وجود کو مانتے ہے۔ مذہب کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ تورات انجیل اور قرآن کریم میں سے کسی کو بھی تسلیم نہ کرتے ہو۔ اول تو ہر سلیم العقل آدمی ان تمام کتابوں کو منزل من اللہ مانتا ہے۔ ورنہ تینوں میں سے کسی نہ کسی کتاب کو ضرور تسلیم کرتا ہے۔ جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ ان تینوں کتابوں میں اللہ نے یہ وعدہ فرمایا ہے۔ تو اس کے لیے یہ باور کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر وعدہ ایفا کرنے والا اور کوئی نہیں۔ اس لیے انسانوں کو اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے اور اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھنا چاہیے۔ ہم انسان جو اللہ کے مقابلے میں ایک پتنگے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے انھیں اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے اعزاز سے نواز ہے کہ اگر وہ اپنا سب کچھ اللہ کے وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے اللہ کی امانت میں دے دیں اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے ساری زندگی گزار دیں۔ تو اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں انھیں ایسی جنت عطا کروں گا جس کی نعمتوں کا تصور نہ کبھی ان کے خیال میں گزرا ہوگا نہ کسی آنکھ نے ایسی نعمتیں دیکھی ہوں گی اور نہ کبھی کسی کان نے ایسی نعمتوں کا تذکرہ سنا ہوگا اور یہی سب سے بڑی کا میابی ہے۔ یہ ہے اسلامی زندگی کا وہ کم سے کم خاکہ جس میں اللہ سے وفا کے وہ مختلف رنگ بھرے جاتے ہیں۔ جنھیں تقوی، اطاعت، توکل، خشیت، قناعت، خدا خوفی، صبر، شکر اور شہادت جیسے فضائل کا نام دیا جاتا ہے۔ منافقین کے سامنے یہ خاکہ کھنیچ کر بتایا جارہا ہے کہ اسلامی زندگی کی بنیاد اللہ سے کیا ہوا یہ سودا اور عہدو پیمان ہے۔ جس میں دوئی کا کوئی تصور نہیں۔ جس میں وفا کی کوئی تقسیم نہیں جس میں ایک آستانے کے سوا کوئی آستانہ نہیں۔ جس میں دل و دماغ کی یکسوائی میں کوئی دخل انداز ہونے والا نہیں جس میں کسی اور کی کبریائی اور کسی اور کی بندگی کا کوئی جواز نہیں تم جو ابھی تک نہ عقیدہ میں یکسو ہوسکے ہو نہ اطاعت میں۔ تمہارے دل و دماغ کے رشتے ابھی تک وفا کے مختلف آستانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ تم ابھی تک اللہ کے سہارے کے سوا نہ جانے کن کن سہاروں سے ٹیک لگائے ہوئے ہو۔ تم ایمان کی اصل حقیقت کو سمجھو تاکہ تمہیں اپنے نفاق کو سمجھنے میں مدد ملے اور تم یکسوئی سے ایمان کی دولت پا سکو۔
Top