Tafseer-e-Saadi - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور جو (اسکی طرف) رجوع ہوتا ہے اسکو اپنی طرف کا راستہ دکھاتا ہے۔
27- 29: اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں، اللہ کے رسول سے بطریق تلسبیس بےسوچے سمجھے سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں (آیت) ” کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اسکے رب کی طرف سے “ یعنی ان کے زعم کے مطابق، ان اگر ان کے پاس معجزہ آگیا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” کہہ دیجئے ! اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ دکھلاتا ہے اپنی طرف اس کو جس نے رجوع کیا۔ “ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہوا۔ پس ہدایت اور گمراہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ سے آیات و معجزات پر موقف قرار دیں، بایں ہمہ وہ سخت جھوٹے ہیں۔ (آیت) (الانعام : 6 / 111) ” اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں، ان کے ساتھ مردے ہم کلام ہوں اور ان کے سامنے ہر چیز اکٹھی کردیں تب بھی یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں۔ “ یہ لازم نہیں کہ رسول ان کے پاس وہی متعین معجزہ لے کر آئے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں بلکہ وہ جو نشانی لے کر آئے جس سے حق واضح ہوجائے تو کافی ہے اور اس سے مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے لئے ان کے متعین معجزات کے طلب کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ اگر ان کے مطالبے کے مطابق نشانی آجائے اور وہ اس پر ایمان لانے سے انکار کردیں تو بہت جلد ان کو اللہ تعالیٰ کا عذاب آلے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں “ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کا قلق اور اضطراب دور ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ فرحت اور لذت آجاتی ہے۔ فرمایا : (آیت) ” سنو ! اللہ کے ذکر ہی سے دل چین پاتے ہیں۔ “ دلوں کے لائق اور سزا وار بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن نہ ہوں کیونکہ دلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ اور شیریں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی مقدار کے مطابق دل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس قول کے مطابق یہاں ذکر سے مراد بندے کا اپنے رب کا ذکر کرنا ہے مثلاً تسبیح اور تکبیر و تہلیل وغیرہ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یاد دہانی کے لئے نازل فرمائی ہے۔ تب ذکر الہٰی کے ذریعے سے اطمینان قلب کے معنی یہ ہوں گے کہ دل جب قرآن کے معانی اور اس کے احضکام کی معرفت حاصل کرلیتے ہیں تو اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیونکہق رآن کے معانی حق مبین پر دلالت کرتے ہیں اور دلائل وبراہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ علم اور یقین کے بغیر دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور کتاب اللہ کامل ترین وجوہ کے ساتھ علم اور یقین کو متضمن ہے۔ کتاب اللہ سوا دیگر کتب علم و یقین کی طرف راجع نہیں ہوتیں، اس لئے دن ان پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اس کے برعکس وہ دلائل کے تعارض اور احکام کے تضاد کی بنا پر ہمیشہ قلق کا شکار رہتے ہیں (آیت) (النساء : 4 / 28) ” اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف ہاتے “۔ اور یہ چیز کتاب اللہ کی دی ہوئی خبر، کتاب اللہ میں تدبیر اور دیگر مختلف علوم میں غور و فکر سے واضح ہوجاتی ہے پس (طالب حق) ان کتب علوم اور کتاب اللہ کے درمیان بہت بڑا فرق پائے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ “ یعنی جو اپنے دل سے اللہ پر، اس کے فرشتون پر، اس کی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ یعنی اعمال قلوب مثلاً محبت الہٰی، خشیت الہٰی اور اللہ تعالیٰ پر امید وغیرہ اور اعمال جو ارح مثلاً نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کرے۔ (آیت) ” ان کے لئے خوش حالی اور عمدہ ٹھکانا ہے۔ “ یعنی ان کا حال پاک صاف اور ان کا انجام اچھا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ انہیں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی طرف سے اکرام و تکریم حاصل ہے اور انہیں کامل راحت اور پورا اطمینان قلب عطا کیا گیا ہے۔ ان جملہ نعمتوں میں، جنت کا ” شجر طوبیٰ “ بھی شامل ہے کہ ایک سوار اس درخت کے سائے میں ایک سو سال تک چلتا رہے گا مگر سایہ ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے۔ (1) (1۔ مسند احمد 3 / 17)
Top