Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت 141 سے 159 (کذبت ثمود) ” قوم ثمود نے جھٹلا دیا۔ “ علاقہ حجر کے شہروں میں آباد معروف قبیلہ ہے (المرسلین) ” پیغمبروں کو۔ “ انہوں نے صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی جو توحید لے کر ان کے پاس آئے جو تمام انبیاء ومرسلین کی دعوت تھی، اس لئے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تکذیب گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ (اذ قال لھم اخوھم صلح) ” جب ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے (جو ان کے نسبی بھائی تھے، نہایت نرمی سے) ان سے کہا : (الا تتقون) کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر شرک اور معاصی کو نہیں چھوڑتے ؟ (انی لکم رسول) ” بیشک میں تمہارے رب کی طرف سے رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور رحمت کی بنا پر مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قبول کرو اور فروتنی اور اطاعت کے ساتھ اس کا استقبال کرو۔ (امین) تم میری امانت و دیانت کو خوب جانتے ہوا اور یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ تم مجھ پر اور میری دعوت پر ایمان لاؤ۔ (وما اسئلکم علیہ من اجر) ” اور میں اس کا تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ “ تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تمہاری اتباع سے صرف اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم ہمارا مال ہتھیانا چاہتے ہو۔ (ان اجری الا علی رب العلمین) ” میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہے۔ “ یعنی میں اس اجرو ثواب صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہوں۔ (اتترکون فی ماھھنا امنین۔ فی جنت وعیون۔ وزروع ونخل طلعھا ھضیم) ” کیا جو چیزیں ہیں ان میں تم بےخوف چھوڑ دیے جاؤ گے یعنی باغات اور چشموں میں، اور کھیتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں۔ “ یعنی پھل سے لدے ہوئے یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں ان نعمتوں اور آسائشوں میں بےکار چھوڑ دیا جائے گا تاکہ تم ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں تمہیں کوئی حکم دیا جائے گا نہ کسی چیز سے روکا جائے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی میں مدد طلب کرو گے۔ (وتنحتون من الجبال بیوتا فرھین) یعنی تمہاری مہارت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تم ٹھوس سخت پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بناتے ہو۔ (فاتقوا اللہ واطیعون۔ ولا تطیعوا امر المسرفین) ” پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو۔ “ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کیا۔ (الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون) ” جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ “ یعنی جن کا وصف اور جن کی عادت، گناہوں کے ارتکاب اور لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت کے ذریعے سے زمین میں اس قدر فساد پھیلانا ہے کہ اس کی اصلاح ممکن نہ ہو۔ یہ سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے کیونکہ یہ خالص شر ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے نبی کی مخالفت کے لئے ہر وقت مستعد اور کمر بستہ رہتے تھے اور محض لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر دعوت توحید کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش کرتے تھے۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ان مفسدوں کے دھوکے میں آنے سے روکا۔ شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الارض ولا یصلحون) (النمل : 28/48) ” اور شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہ کرتے تھے۔ “ اس نہی اور وعظ و نصیھت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا، چناچہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا : (انما انت من المسخرین) یعنی تجھ پر تو جادو کردیا گیا ہے اس لئے تو ہذیانی کیفیت میں بول رہا ہے اور ایسی باتیں کہہ رہا ہے جس کا کوئی معنی نہیں۔ (وما انت الا بشر مثلنا) ” تو ہماری ہی طرح کا آدمی ہے۔ “ تب وہ کون سی فضیلت ہے جس کے ذریدے سے تجھے ہم پر فوقیت حاصل ہے، یہاں تک کہ تو ہمیں اپنی اتباع کی دعوت دیتا ہے۔ (فات بایۃ ان کنت من الصدیقن) ” اگر تو سچا ہے تو کوئی نشانی پیش کر۔ “ حالانکہ صالح (علیہ السلام) کی مجرد حالت کا اعتبار نیز آپ کی دعوت کا اعتبار ہی اس چیز کی صحت اور صداقت پر سب سے بڑی اور سب سے واضح دلیل ہے جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے مگر انہوں نے اپنی بدبختی کی بنا پر معجزات کا مطالبہ کیا۔ غالب حالات میں ان معجزات کا مطالبہ کرنے والے فلاح نہیں پاتے کیونکہ ان کا مطالبہ طلب رشد و ہدایت پر نہیں بلکہ تعنت پر مبنی ہوتا ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا : (ھذہ ناقۃ) ” یہ اونٹنی ہے “ جو ٹھوس اور ملائم پتھر سے نکلی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو اور تم سب اس کا مشاہدہ کر رہے ہو۔ (لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم) ” اس کی پانی پینے کی باری اور ایک معین روز تمہاری باری ہے۔ “ یعنی اس کنویں سے ایک دن اونٹنی پانی پئے گی اور تم اس کا دود ھ پیو گے اگلے روز اونٹنی پانی نہیں پئیے گی اور تم کنویں کا پانی پیو گے۔ (ولا تمسوھا بسواء ) ” اور اس کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لئے نہ چھونا۔ “ یعنی اسے ہلاک وغیرہ کا پانی پیو گے۔ (ولا تمسوھا بسواء) ” اور اس کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لئے نہ چھونا۔ “ یعنی اسے ہلاک وغیرہ کرنے کی نیت سے چھونا بھی نہیں (فیا خذکم عذاب یوم عظیم) ” ورنہ تم کو سخت دن کا عذاب آپکڑے گا۔ “ پس یہ اونٹنی ان کے سامنے برآمد ہوئی اور اسی حال میں ان کے سامنے رہی مگر وہ ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ (فعقروھا فاصبھوا ندمین۔ فاخذھم العذاب) ” پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے۔ پس ان کو عذاب نے آپکڑا۔ “ یہ عذاب ایک چیخ کی صورت میں نازل ہوا جس نے ان سب کو ہلاک کرکے رکھ دیا (ان فی ذلک لایۃ) اس میں ہمارے رسولوں کی دعوت کی صداقت اور ان کے مخالفین کے موقف کے بطلان کی دلی ہے (وما کان اکثرھم مومنین۔ وان ربک لھو العزیز الرحیم)
Top