Tafseer-e-Saadi - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
لوگو تم (سب) خدا کے محتاج ہو اور خدا بےپروا سزاوار (حمد و ثنا) ہے
آیت 15 اللہ تبارک وتعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہے، انہیں ان کے احوال و اوصاف سے آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں : (1) وہ وجود میں آنے کے لئے اس کے محتاج ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو جود میں نہ لائے تو وہ وجود میں نہیں آسکتے۔ (2) وہ اپنے مختلف قویٰ اعضاء اور جوارح کے حصول میں اس کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو یہ قوی عطا نہ کرے تو کسی کام کے لئے ان میں کوئی استعداد نہیں۔ (3) وہ خوراک، رزق اور دیگر ظاہری و باطنی نعمتوں کے حصول میں اسی کے محتاج ہیں۔ اگر اس کا فضل و کرم نہ ہو اور اگر وہ ان امور کے حصول میں آسانی پیدا نہ کرے تو وہ رزق اور دیگر نعمتیں حاصل نہیں کرسکتے۔ (4) وہ اپنے مصائب و تکالیف، کرب و غم اور شدائد کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی مصیبتوں اور کرب و غم کو دور اور انکی عسرت کا ازالہ نہ کرے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ مصائب و شدائد میں گھرے رہیں۔ (5) وہ اپنی مختلف انواع کی تربیت و تدبیر میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ (6) وہ اسے الہ بنانے، اس سے محبت کرنے، اس کو معبود بنانے اور خلاص اسی کی عبادت کرنے میں اس کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان امور کی توفیق عطا نہ کرے تو یہ ہلاک ہوجائیں، ان کی ارواح، قلوب اور احوال فاسد ہوجائیں۔ (7) وہ ان چیزوں کے علم کے حصول میں جنہیں وہ نہیں جانتے اور ان کی اصلاح کرنے والے عمل کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو علم عطا نہ کرے تو وہ کبھی بھی علم سے بہرہ ور نہ ہوسکیں اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو عمل کی توفیق سے نہ نوازے تو وہ کبھی نیکی نہ کرسکیں۔۔۔ وہ ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے بالذات اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں خواہ انہیں اپنی کسی حاجت کا شعور ہو یا نہ ہو۔ مگر لوگوں میں سے توفیق سے بہرہ ور وہی ہے جو دینی اور دنیاوی امور سے متعلق اپنے تمام احوال میں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنے فقر و احتیاج کا مشاہدہ کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور فروتنی کا اظہار کرتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے نفس کے حوالے نہ کرے، اس کے تمام امور میں اس کی مدد فرمائے اور وہ اس آیت کے معنی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ ایسا شخص اپنے اس رب اور معبود کی کامل اعانت کا مستحق ہے جو ماں کے اپنے بچوں پر مہربانی ہونے سے کہیں بڑھ کر اس پر مہربان اور رحیم ہے۔ (واللہ ھو الغنی الحمید) یعنی اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو ہر لحاظ سے غنائے کامل کی مالک ہے۔ وہ ان چیزوں میں سے کسی چیز کی محتاج نہیں جن کی مخلوق محتاج اور ضرورت مند ہوتی ہے کیونکہ اس کی صفات تمام تر صفات کمال اور جلال ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غنائے تام ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو دنیا و آخرت میں غنا سے نوازا ہے۔ (الحمید) وہ اپنی ذات اور اپنے ناموں میں قابل حمد و ستائش ہے کیونکہ اس کے تمام نام اچھے، اس کے تمام اوصاف عالی شان اور اس کے تمام افعال سراسر فضل و احسان، عدل و حکمت اور رحمت پر مبنی ہیں۔ وہ اپنے اوامرونواہی میں قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنی صفات، فضل و اکرام اور جزا و سزا میں عدل و انصاف کی وجہ سے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنے غنا میں قابل تعریف ہے اور وہ اپنی حمد و ثنا سے مستغنی اور بےنیاز ہے۔ (ان یشایذھبکم ویات بخلق جدید) اس سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اے لوگو ! اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسری لوگوں کو لے آئے جو تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ یہ ان کے لئے ہلاکت کی وعید اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں۔ اس میں موت کے بعد زندگی کے اثبات کا احتمال بھی ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہر چیز پر نافذ ہے۔ اس کی مشیت اس چیز پر بھی قادر ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ نئے سرے سے زندہ کے، مگر اس زندگی کے لئے ایک وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے، اس وقت مقرر سے تقدیم ہوگی نہ تاخیر۔ (وما ذلک علی اللہ بعزیز) ” اور یہ اللہ کو کچھ مشکل نہیں۔ “ یعنی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں اور کوئی ہستی اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ آخری معنی پر دلالت کرتی ہے، یعنی (ولا تزر و ازرۃ وزراخری) قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (وان تدع مثقلہ) اگر کوئی نفس جس نے اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہوگا اور وہ کسی سے بوجھ اٹھانے کے لئے التماس کرے گا (لایحمل منہ شیء ولو کان ذا قربی) ” تو کوئی شخص بھی خواہ اس کا رشتہ وار ہی کیوں نہ ہو اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “ کیونکہ آخرت کے احوال دنیا کے احوال کی مانند نہیں ہیں جہاں دوست، دوست کی مدد کرتا ہے، بلکہ قیامت کے روز تو بندہ تمنا کرے گا کہ اس کا کسی کے ذمے حق ہو، خواہ اس کے والدین اور اقارب کے ذمے ہی کیوں نہ ہو۔ (انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب واقاموا الصلوۃ) ” آپ تو صرف انہی لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہیں جو بن دیکھتے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں۔ “ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو انذار کو قبول کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو کھلے چھپے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں و نماز کو اس کی تمام حدودود شر ائط، ارکان و واجبات اور پورے خشوع کے ساتھ قائم کرتے ہیں کیونکہ خشیت الٰہی بندے سے اس عمل کا تقاضا کرتی ہے جس کے ضیاع پر سزا کا خوف ہو اور ایسے عمل سے دور رہنے کا تقاضا کرتی ہے جس کے ارتکاب پر عذاب کا خوف ہو۔ نماز بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (ومن تزلی فانما یتزلی لنفسہ) یعنی جس کسی نے اپنے نفس کو عیوب مثلاً ریا، تکبر، جھوٹ، دھوکہ، مکر و فریب، نفاق اور دیگر اخلقا رذیلہ سے پاک کیا اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا مثلاً صدق، اخلاص، تواضح و انکسا، بندوں کی خیر خواہی اور دل کو بغض حسد، کینے اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک رکھا، تو اس کے تزکیہ نفس کا فائدہ اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے عمل میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ (والی اللہ المصیر) ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ “ پس وہ تمام خلائق کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان کے اعمال کا حساب لے گا اور کوئی چھوٹا یا بڑا عمل شمار کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
Top