Tafseer-e-Saadi - Faatir : 14
اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ١ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ١ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ١ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠   ۧ
اِنْ : اگر تَدْعُوْهُمْ : تم ان کو پکارو لَا يَسْمَعُوْا : وہ نہیں سنیں گے دُعَآءَكُمْ ۚ : تمہاری پکار (دعا) وَلَوْ : اور اگر سَمِعُوْا : وہ سن لیں مَا اسْتَجَابُوْا : وہ حاجت پوری نہ کرسکیں گے لَكُمْ ۭ : تمہاری وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور روز قیامت يَكْفُرُوْنَ : وہ انکار کریں گے بِشِرْكِكُمْ ۭ : تمہارے شرک کرنے کا وَلَا يُنَبِّئُكَ : اور تجھ کو خبر نہ دے گا مِثْلُ : مانند خَبِيْرٍ : خبر دینے والا
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں اور قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کردیں گے اور (خدائے باخبر) کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا
آیت 14 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی بےپایاں رحمت کا بیان ہے کہ اس نے عالم ارضی کے لئے پانی کے مختلف ذخیرے تخلیقف فرمائے اور ان کو ایک سا نہیں بنایا کیونکہ مصلحت تقاضا کرتی ہے کہ دریاؤں کا پانی میٹھا، پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار ہو، تاکہ اسے پینے والے، باغوں اور کھیتوں کو سیراب کرنے والے اپنے کام میں لائیں اور سمندروں کا پانی نمکین اور سخت کھاری ہو، تاکہ ان سمندروں کے اندر مرنے والے حیوانات کی بدبو سے ہوا خراب نہ ہو کیونکہ سمندر کا پانی چلتا نہیں بلکہ ساکن ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاری پن اسے تغیر سے بچائے رکھے اور اس کے حیوانات خوبصورت اور زیادہ لذیذ ہوں، بنا بریں فرمایا : (ومن کل) یعنی کھاری پانی اور میٹھے پانی کے ذخیرے میں سے (تاکلون لحما طریاً ) ” تم تازہ گوشت کھاتے ہو۔ “ اس سے مراد مچھلی ہے، جس کا شکار سمندر میں بہت آسان ہے۔ (وتسخرجون حلیۃ تلبسونھا) ” اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔ “ یعنی موتی اور مونگے وغیرہ، جو سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بندوں کے لئے عظیم مصالح ہیں۔ سمندر کے فوائد اور مصالح میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کشتیوں کے لئے مسخر کیا۔ تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلتی ہیں، مسافر ان کشتیوں اور جہازوں پر بھاری بوجھ اور اپنا سامان تجارت لادتے ہیں۔ تو اس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس لئے فرمایا : (لتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون) ” اور تاکہ تم اس کا فضل (معاش) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ “ ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے کبھی ایک میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو دوسرے میں اضافہ اور کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں۔ اس سے بندوں کے اجسام، ان کے حیوانات، ان کے باغات اور ان کی کھیتیوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سورج اور چاند کی تسخیر میں رشونی اور نور، حرکت اور سکون کے مصالح حاصل ہوتے ہیں، سورج کی روشنی میں بندے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کے لئے پھیل جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں پھل پکتے ہیں اور دیگر ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کے فقدان سے لوگوں کو ضرر پہنچتا ہے۔ (کل یجری لاجل مستی) ” اور ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ “ یعنی چاند اور سورج دونوں اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ جب وقت مقررہ آجائے گا اور دنیا کی مدت پوری ہونے کا وقت قریب آپہنچے گا تو ان کی طاقت سلب کرلی جائے گی، چاند بےنور ہوجائے گا، سورج کو روشنی سے محروم کردیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ان عظیم مخلوقات میں جو عبرتیں اللہ تعالیٰ کے کمال اور احسان پر دلالت کرتی ہیں، ان کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : (ذلکم اللہ ربکم لہ الملک) ” یہ ہے اللہ، تمہارا رب، اسی کے لئے بادشاہی ہے۔ “ یعنی وہ ہستی جو ان بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق اور تسخیر میں متفرد ہے وہی رب، الہ اور مستحق عبادت ہے، جو تمام اقدار کا مالک ہے۔ (والذین تدعون من دونہ) ” اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو۔ “ یعنی تم جن بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو پوجتے ہو (مایملکون من قطمیر) وہ قلیل یا کثیر کسی چیز کے مالک نہیں حتی کہ وہ اس معمولی چھلکے کے بھی مالک نہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے جو حیر ترین چیز ہے۔ یہ ان کی (الوہیت کی) نفی اور اس کے عموم کی تصریح ہے۔ ان خود ساختہ معبودوں کو کیسے پکارا جاسکتا ہے حالانکہ وہ زمین و آسمان کی بادشاہی میں کسی چیز کے بھی مالک نہیں ؟ اس کے ساتھ ساتھ (ان تدعوھم ) ” اگر تم ان کو پکارو “ تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے کیونکہ وہ پتھر ہیں یا مرے ہوئے انسان یا فرشتے جو ہر وقت اپنے رب کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ (ولو سمعوا) بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں۔ (ما استجابوا لکم) ” تو تمہاری بات قبول نہیں کریں گے۔ “ کیونکہ وہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں نہ ان میں سے اکثر ان لوگوں کی عبادت پر راضی ہی ہیں جو ان کی عبادت کرتے ہیں بنا بریں فرمایا : (ویوم القیمۃ یکفرون بشرلکم) ” اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے “ یعنی ان کے خود ساختہ معبود ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے : (قالوا سبحنک انت ولینا من دونھم) (سبا :31/33) ” تو پاک ہے، تو ہی ہمارا دوست ہے نہ کہ یہ۔ “ (ولا ینبئک مثل خبیر) یعنی آپ کو آگاہ کرنے والی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اللہ، علیم وخبیر سے زیاہ سچی ہو۔ پس آپ کو قطعی طور پر یقین ہونا چاہیے کہ یہ معاملہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے ایک عینی مشاہدہ ہے، اس لئے آپ کو اس بارے میں قطعی کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ آیات کریمہ روشن اور واضح دلائل پر مشتمل ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی ہستی ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں۔ اس کے سواہر ہستی کی عبادت باطل اور باطل سے متعلق ہے اور وہ اپنی عبادت کرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
Top