Tafseer-e-Madani - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا
[ 11] حضرت جبرائیل امین کے آنحضرت سے غایت قرب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر وہ دو کمانوں کے فاصلے پر رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ سو یہ تعبیر یہ انتہائی قرب سے کنایۃ ہے جیسا کہ یہ عربوں کے یہاں رائج تھا کہ وہ اپنے محاورات میں گایت قرب کو ظاہر کرنے کیلئے قاب القوس کے اس استعارے کو استعمال کیا کرتے تھے، یعنی جبرائیل آنحضرت ﷺ سے نہایت قریب ہوگئے [ روح المعانی، خازن اور صفوۃ وغیرہ ] سو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے یہاں محاورے میں گز یا دو گزا فٹ یا دو فٹ وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں، اور اوکا کلمہ یہاں پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ تشبیہ محض قرب کے بیان کیلئے ہے، یہ فاصلہ اس سے بھی کم ہوسکتا ہے۔ بہرکیف جبرائیل امین آپ ﷺ کے نہایت قریب پہنچ گئے، اور غایت اہتمام کے ساتھ آپ کو تعلیم دی۔ یہ نہیں کہ دور سے اپنی بات پھینک ماری ہو۔ اور اس بات کی فکر و پروا نہ ہو کہ آپ ﷺ نے بات اچھی طرح سنی یا نہیں۔ اور اگر سنی تو سمجھی بھی ہے یا نہیں۔ سو ایسے نہیں تھا بلکہ آنجاب نے پورے اہتمام اور التفات کیساتھ آپ کے کان میں بات اس طرح ڈالی کہ آپ ﷺ اس کو اچھی طرح سن بھی لیں اور سمجھ بھی لیں یہاں پر یہ بات بھی واضح رہے کہ کاہنوں کے شیاطین کا جو علم ہوتا ہے اس کو قرآن حکیم میں آچکی ہوئی بات سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ چناچہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد ہوتا ہے، { الا من خطف الخطفۃ فاتبعہٗ شھاب ثاقب } [ الصّٰفّٰت : 10 پ 23] جس طرح چور اور اچکے لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب استاذ اچکے ہوں گے تو وہ شاگردوں کو تعلیم بھی اچکوں ہی کی دیں گے۔ سو قرآن حکیم نے یہاں پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے طریقہ تعلیم کو اس لئے نمایاں فرمایا ہے کہ تاکہ اس سے ان دونوں کے درمیان فرق اچھی طرح واضح ہوجائے کہ آپ ﷺ کی تعلیم اس خاص اہتمام و شان کی تھی جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہ کبھی دنیا میں پائی گئی اور نہ قیامت تک کبھی پائی جانی ممکن ہے۔
Top