Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 48
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١ۚ فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
وَ : اور مَا نُرْسِلُ : نہیں بھیجتے ہم الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر مُبَشِّرِيْنَ : خوشخبری دینے والے وَ : اور مُنْذِرِيْنَ : ڈر سنانے والے فَمَنْ : پس جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَاَصْلَحَ : اور سنور گیا فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں ان پر عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجتے رہے ہیں تو خوش خبری سنانے اور ڈرانے کو۔ پھر جو شخص ایمان لائے اور نیکوکار ہوجائے تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ اندوہناک ہوں گے۔
آیت 48 اللہ تبارک و تعالیٰ اس چیز کا خلاصہ بیان فرماتا ہے جس کے ساتھ اس نے رسولوں کو بھیجا اور وہ ہے تبشیر اور انداز، یہ چیز مبشر، مبشربہ اور ان اعمال کے بیان کو مستلزم ہے کہ جب بندہ ان کو بجا لاتا ہے تو اسے بشارت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرحیہ منذر، منذربہ اور ایسے اعمال کے بیان کو لازم قرار دیتی ہے کہ بندہ جب ان اعمال کا ارتکاب کرتا ہے تو انداز کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لوگ انبیاء ومرسلین کی دعوت پر لبیک کہنے یا ان کی دعوت کا جواب نہ دینے کے اعتبار سے دو اقسام میں منقسم ہیں (فمن امن و اصلح) ” پھر جو شخص ایمان لائے اور اصلاح کرے یعنی جو اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے ایمان، اعمال اور نیت کی اصلاح کرتے ہیں (فلا خوف علیھم) ” تو ایسے لوگوں کو کچھ خوف ہوگا “ آنے والے امور سے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا (ولا ھم یحزنون) ” اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ “ اور گزرے ہوئے امور پر وہ غمزدہ نہ ہوں گے۔ (والذین کذبوا بایتنا یمسھم العذاب) ” اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچے گا “ اور وہ اس کا مزا چکھیں گے (بما کانوا یفسقون) ” اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھے۔ “
Top