Tafseer-e-Haqqani - Nooh : 8
ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ
ثُمَّ : پھر اِنِّىْ : بیشک میں دَعَوْتُهُمْ : میں نے پکارا ان کو جِهَارًا : اعلانیہ
پھر میں نے ان کو کھلم کھلا بھی بلایا
ترکیب : جھارا منصوب علی المصدریۃ لان الدعاء یکون جھارا وغیر جھار فالجھاراحد نوعیہ ویجوزان یکون مصدرا فی موضع الحال ای مجاھرا اوذاجھارا وصفۃ مصدر محذوف بمعنی دعاء جھارا ای مجاھرابہ ‘ اسرارا مفعول مطلق من اسررت یرسل وکذاما بعدہ یمدو یجعل مجزوم علی انہ جواب الامرای استغفروا والمدار الدرورھو التحلب بالمطروانتصابہ اماعلی الحال من السماء ولم یؤنث لان مفعا لایذکرو یونث اوانہ نعت لمصدر محذوف ای ارسالا مدارا۔ تفسیر… : کسریٰ نے مدائن میں طاق بنایا اور خلفائِ بنی العباس کے عہد میں بغداد شہر کی عمارات چنی گئیں اور کوفہ اور بصرہ بھی آباد ہوا تھا۔ الغرض حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بت پرستی اور مکاری سے منع کرنا شروع کیا اور توحید اور مکارم اخلاق اور خدا پرستی کی تعلیم کی۔ لوگوں کی زندگی کے ایام پورے ہو چکنے کو تھے۔ نہ مانا اور مقابلہ کو آمادہ ہوئے۔ اب ان آیات میں خدا تعالیٰ حضرت نوح (علیہ السلام) کا بھیجنا اور قوم کو ڈر سنانا اور قوم کا نہ ماننا اور پھر نوح ( علیہ السلام) کا حق سبحانہ ٗ سے بطور شکایت قوم یہ عرض کرنا کہ میں نے ان کو یوں سمجھایا یا میرا کہا انہوں نے نہ مانا بیان فرماتا ہے، فقال انا ارسلنا نوحاً الی قومہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کس لیے کہ ان انذرقومک من قبل ان یاتیھم عذاب الیم کہ اپنی قوم کو عذاب الیم (دنیا کا غرق ‘ آخرت کا جہنم) کے آنے سے پہلے ڈرا اور خبردار کرتا کہ وہ اپنی بدکرداری سے باز آئیں قال یا قوم انی لکم نذیر مبین نوح نے حسب الامرقوم سے کہا اے قوم میں تمہارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں کوئی مخفی اور مبہم اور معما کی بات نہیں۔ ایسی قوم جو دریائے نکبت میں ڈوب رہی ہو اس کے ناصح کو مناسب یہی ہے صاف صاف کہے۔ ابہام اور معما میں گول گول باتیں نہ کہے کہ وہ سودمند نہیں ہوتیں۔ ان اعبدوا اللہ اول یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو، بت پرستی اور توہمات باطلہ کی پابندی چھوڑ دو اسی کے ہاتھ میں موت وحیات، نفع و نقصان ہے۔ معلوم ہوا کہ قوم بت پرست تھی۔ اس لیے پہلے توحید کا حکم دیا کیونکہ تمام مکارم اخلاق کی بنیاد توحید پرستی ہے۔ (2) واتقوہ اور اللہ سے ڈرا بھی کرو، بدکرداری اور جس قدر مکروہ کام ہیں چھوڑو۔ کس لیے کہ ایسے کاموں پر وہ سزا دیتا ہے۔ یہ ہیں اللہ سے ڈرنے کے معنی۔ معلوم ہوا کہ قوم بڑی بدکار تھی، زمین کو ان کی بدکاری اور گندے کاموں نے گندہ کر رکھا تھا۔ (3) واطیعون اور معاملات اور اصلاح رسم و رواج اور درستی اخلاق و امور تمدن و معاشرت و طریق عبادت میں میرا کہنا مانو، جس راہ میں تم کو لے چلوں چلو۔ کس لیے کہ سعادت کے پرخطر رستہ کا ہادی نبی ہوتا ہے جو قوم اس کے قدم بقدم چلے گی سعادت دارین تک پہنچے گی اور جس نے اپنے رسول کو چھوڑ دیا وہ پرخار اور عمیق گھاٹیوں میں ٹکرا ٹکرا کر مرجائے گی۔ صحابہ آنحضرت ﷺ کے قدم بقدم چلے ‘ دین و دنیا کے بادشاہ ہوگئے۔ آج کل اکثر مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کا رستہ چھوڑ رکھا ہے اس لیے دین و دنیا کی رسوائیاں اور ذلتیں ان پر سوار ہیں۔
Top