Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 64
ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًاۙ
ثُمَّ : پھر اِنِّىْٓ : بیشک میں نے اَعْلَنْتُ لَهُمْ : اعلانیہ (تبلیغ) کی ان کو وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ : اور چپکے چپکے کی ان کے لیے اِسْرَارًا : تنہائی میں کرنا
ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے سات خوشے اگائے، ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : قرآن مجید میں ”ْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ کا لفظ عام یعنی اسلام کے معنی میں بھی آیا ہے، جیسے فرمایا : (اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ) [ التوبۃ : 34 ] ”بیشک بہت سے عالم اور درویش یقیناً لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔“ اس صورت میں اسلام کے ہر کام میں خرچ کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے اور خاص معنوں میں بھی آیا ہے، جیسا کہ سورة توبہ (60) میں صدقات خرچ کرنے کی جگہوں میں ایک ”فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ ہے۔ وہاں ”فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ سے خاص جہاد مراد ہے، نیز صحیح بخاری میں حج کو بھی اس میں شمار کیا ہے۔ یہاں اگرچہ عام معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے مگر جیسا کہ شاہ عبد القادر ؓ نے فرمایا : ”جہاد مراد لینا گزشتہ اور آئندہ آیات کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔“
Top