Siraj-ul-Bayan - An-Nahl : 125
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اُدْعُ : تم بلاؤ اِلٰى : طرف سَبِيْلِ : راستہ رَبِّكَ : اپنا رب بِالْحِكْمَةِ : حکمت (دانائی) سے وَالْمَوْعِظَةِ : اور نصیحت الْحَسَنَةِ : اچھی وَجَادِلْهُمْ : اور بحث کرو ان سے بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَنْ : اس کو جو ضَلَّ : گمراہ ہوا عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالْمُهْتَدِيْنَ : راہ پانے والوں کو
تو حکمت اور عمدہ نصیحت سے اپنے رب کی راہ پر بلا ، اور ان کو اس طرح الزام دے ، جس طرح بہتر ہو ، تیرا رب اسے خوب جانتا ہے ، جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا ہے ، اور وہ ہدایت یافتوں سے بھی خوب آگاہ ہے (ف 1) ۔
1) دعوت وبشارت کا صحیح ترین اصول بتایا ہے یعنی جب خدا کے دین کی طرف لوگوں کو بلایا جائے تو نہایت حکیمانہ انداز میں موعظت اور پند کے طریق پر صلح جوئی اور رواداری کے ساتھ اگر اختلاف کا موقع آئے تو احسن طریق سے اس کو نبھایا جائے مقصد جدل وتعصب نہ ہو ۔ حضور ﷺ کا یہی طریق دعوت وتبلیغ تھا ، یہی وجہ تھی ، لوگ کھچے ہوئے اسلام کی قریب آتے ، اور اسے قبول کرلیتے حضور جب مخالف کو سمجھاتے تو ایسے جاذب طریق سے کہ دل میں اتر جائے ۔ آج حضرات علماء کے اخلاق بگڑ چکے ہیں وہ تبلیغ و اشاعت کی نفسیات سے آگاہ نہیں ، وہ نہیں جانتے قول بیع کیا ہے کس طریق سے لوگوں کو حق وصداقت کی طرف بلانا چاہئے قاعدہ ہے کہ اچھی بات بھی برے انداز میں پیش کیجئے تو لوگ ٹھکرا دیں گے اس لئے ضروری ہے کہ کلمہ حق کا اظہار کیا جائے مگر سلجھے ہوئے انداز میں جس میں زمانہ کی نفسیات کی رعایت نہ ہو ۔
Top