Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو اس کا کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پرچلتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے رہنمائی فرمائی اور یہی لوگ ہیں جو اہل عقل و خرد ہیں۔
(18) جو اس کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان پرچلتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور ہدایت دی اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبان عقل وخرد ہیں۔ طاغوت کی تفسیر کئی جگہ گزرچکی ہے اس سے مراد یا تو بت اور اصنام ہیں یا شیطان ہیں جو لوگ اس قسم کی سرکش طاقتوں سے مجتنب رہے اور ان کی عبادت سے بچے رہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع رہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی غیر اللہ کو شریک نہیں کیا اور صرف اللہ کی عبادت کرتے رہے ان کے لئے دنیا میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ جیسا کہ ہم گیارہویں پارے میں لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ۔ کی تفسیر میں کہہ آئے ہیں اور جب یہ لوگ مستحق بشارت ہیں تو اے پیغمبر میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باوجود اجتناب طاغوت اور انابت الی اللہ کے اس صفت کے ساتھ بھی متصف ہیں جو کلام الٰہی کو کان لگا کر سنتے ہیں اور پھر اس کلام کے تمام احکام کی خواہ وہ اوامرہوں یا نواہی ان کی پیروی کرتے ہیں اور چونکہ وہ تمام ہی احکام اچھے ہیں اس لئے فرمایا فیتحون احسنہ یہ مطلب نہیں کہ اچھی باتوں پر چلتے ہیں اور بری باتیں چھوڑ دیتے ہیں۔ تمام کلام اچھا ہے تو سب پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے اور یہی لوگ صاحب خرد ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چلتے ہیں اس کے نیک پر یعنی حکم پرچلنا کہ اس کو کرتے ہیں منع پر چلنا کر اس کو نہیں کرتے اس کا کرنا نیک ہے اس کا نہ کرنا نیک ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ جملہ اوامرونواہی کا اتباع نیک ہی نیک ہے۔ بعض مفسرین کی اور بھی اقوال ہیں مثلاً واجب اور مستحب اوامر پیش آئیں تو واجب کو اختیار کریں اور مباح اور مستحب پیش آئیں تو مستحب کو اختیار کرتے ہیں عزیمت ورخصت کے امور پیش آئیں تو عزیمت کو اختیار کرتے ہیں قصاص لینے اور معاف کرنے کا معاملہ ہو تو معاف کرنے کا اختیار کرتے ہیں غرض جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل ہوتا ہو اس کا اختیار کرتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی توحید کے قائل تھے مثلاً سعید بن زید، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی وغیرہم بہرحال ہم نے ترجمے اور تیسیر میں مشہور اور راجح قول کو اختیار کرلیا ہے اور فیستمعون القول سے مراد قرآن لیا ہے۔
Top