Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور انسان کا حال یہ ہے کہ جب کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی ہو ہم اسے اپنے فضل سے نوازتے ہیں تو وہ ہماری نشانیوں کے باب میں چالیں چلنے لگتا ہے۔ کہہ دو ، خدا اپنی تدبیروں میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ جو چالیں تم چل رہے ہو ہمارے فرستادے ان کو نوٹ کر رہے ہیں
وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا ۭ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ۔ یہ حال تو قریش ہی کا بیان ہورہا ہے لیکن بات عام خطاب کے اسلوب میں کہہ دی گئی ہے تاکہ ان سے بےالتفاتی کا اظہار بھی ہوجائے اور یہ حقیقت بھی سامنے آجائے کہ اس باب خاص میں جو حال ان کا ہے وہی حال سب کا ہے۔ صرف صاحب توفیق ہی ہوتے ہیں جو اس سے الگ روش اختیار کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اس قسم کی تنبیہی نشانیاں جو لوگوں کو دکھائی جاتی ہیں ان کا کچھ اثر بس اسی وقت تک رہتا ہے جب تک لوگ اس کی زد میں رہتے ہیں۔ جو ہی حالات بدلے، محسوس ہوا کہ کشتی گرداب سے باہر نکل آئی۔ فوراً لیڈر اپنے عوام کے دلوں پر سے اس ابتلا کے تمام اثرات مٹآنے کے لیے طرح طرح کے فلسفے بیان کرنا شروع کردیتے ہیں اور مختلف قسم کی چالوں سے خود بھی اپنی پچھلی سرمستیوں میں کھو جاتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی اپنے ساتھ ہانک لے جاتے ہیں۔ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا۔ لفظ مکر کی تحقیق آل عمران کی آیت مکرو و مکر اللہ کے تحت بیان ہوچکی ہے۔ مکر کے معنی خفیہ تدبیر اور چال بازی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کے باب میں کفار نے جو چال بازی کی اس کی ایک مثال تو یہیں آگے والی آیت میں بیان ہوگئی ہے۔ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ (اگر تو نے ہم کو اس ہلاکت سے نجات دے دی تو ہم تیرے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے لیکن جب ان کو نجات دے دی تو پھر وہ زمین میں سرکشی کرنے لگے)۔ دوسری مثال اس کی، قد مس اباءنا السراء والضراء، والی آیت میں بیان ہوئی ہے یعنی ان کے لیے لیڈر اپنے کو تسلی دیتے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے ضیر کے بالکل خلاف تاریخ کا یہ فلسفہ بیان کرنا شروع کردیتے ہیں کہ اس قسم کے نرم گرم حالات تو قوموں کی زندگی میں پیش آیا ہی کرتے ہیں، ہمارے بزرگوں کو بھی پیش آئے۔ ہمیں بھی پیش آرہے ہیں۔ ان کو خواہ مخواہ یہ اہمیت کیوں دی جائے کہ یہ خدا کی طرف سے بطور تنبیہ پیش آئے ہیں یا ان کا کوئی تعلق ہمارے اعمال و عقائد سے ہے۔ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا۔ مکر کی نسبت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مفہوم خفیہ تدبیر ہوجاتا ہے۔ ہم آل عمران کی مذکورہ بالا آیت کے تحت اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کر آئے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم چالیں چلنی چاہتے ہو تو خوب چل لو، خدا نے تم کو جو یہ ڈھیل دے رکھی ہے تو اس وجہ سے دے رکھی ہے کہ اس کو اپنی تدبیر کے بروئے کار لانے میں کوئی دقت صرف نہیں کرنا پڑتا ہے۔ اس کی تدبیر ہی بروئے کار آتی ہے اور اتنی محکم ہوتی ہے کہ کوئی اس سے بچ کے نکل نہیں سکتا۔ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ ، سے یہاں مراد دو فرشتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری ایک ایک چال ہمارے فرشتے نوٹ کر رہے ہیں۔
Top