Tadabbur-e-Quran - Yunus : 20
وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا١ۚ اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ۠   ۧ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : اگر کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتری عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب سے فَقُلْ : تو کہ دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْغَيْبُ : غیب لِلّٰهِ : اللہ کیلئے فَانْتَظِرُوْا : سو تم انتظار کرو اِنِّىْ : میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
اور وہ کہتے ہیں ان پر ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری جاتی ؟ تو تم جواب دے دو کہ غیب کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے تو تم لوگ انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں
آگے کا مضمون۔ آیات 20 تا 27: آگے کفار کے مطالبۂ عذاب کا حوالہ دے کر اس کا جواب دیا ہے کہ یہ لوگ عذاب کی کوئی نشانی مانگتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس طرح کی کوئی نشانی ان کو دکھا دی گئی تو وہ ضرور ہی ایمان لائیں گے لیکن حالت یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی نشانی ظاہر ہوتی ہے تو جب تک اس کی گرفت میں ہوتے ہیں اس وقت تک تو انہیں خدا یاد آتا ہے۔ لیکن جوں ہی ذرا ڈھیل ملی تو پھر اپنی سرمستیوں میں اس طرح کھوجاتے ہیں گویا کوئی بات سرے سے پیش ہی نہیں آئی۔ ایسے لوگوں کو کوئی مزید نشانی دکھانے سے کیا حاصل ؟۔ پھر کفار کا یہ مغالطہ دور فرمایا ہے کہ آج تمہارے حالات سازگار ہیں اور ہر طرف فراغت و رفاہیت کے سروسامان کی فراوانی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تم خدا کی گرفت سے باہر ہو اور تمہیں کوئی گزند پہنچ ہی نہیں سکتا۔ خدا کے قہر کی بجلی تو اس وقت گرتی ہے جب مستحق عذاب قوم اپنے حالات میں اتنی مگن ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ اب آسمان یا زمین سے کوئی خطرہ اسے پیش آ ہی نہیں سکتا۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ۔ مطالبہ عذاب کا جواب : " آیت " سے یہاں قرینہ دلیل ہے کہ نشانی عذاب مراد ہے۔ قرآن ان کو دو عذابوں کی خبر دے رہا تھا۔ ایک رسول کی تکذیب کی صورت میں اس دنیا میں۔ دوسرا عدم ایمان کی صورت میں آخرت میں۔ سادات قریش کے پندار پر اس سے بڑی چوٹ پڑتی تھی اور یہ چیز بھی منجملہ ان چیزوں کے تھی جن کی وجہ سے وہ قرآن کے بدلنے یا اس میں ترمیم کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس باب میں وہ آنحضرت ﷺ کو زچ کرنے کے لیے یہ کہتے کہ اگر یہ اپنی اس دھمکی سچے ہیں تو آخر یہ اس عذاب کا نمونہ دکھاتے کیوں نہیں جس کی اس شد و مد سے منادی کرتے پھر رہے ہیں ؟ جواب میں نبی ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا کہ عذاب لانا میرا کام نہیں ہے۔ عذاب کی خبر خدا نے دی ہے۔ میں تم کو اس سے خبردار کر رہا ہوں۔ رہی یہ بات کہ عذاب کب اور کس شکل میں آئے گا تو یہ امور غیب ہیں، ان کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ فانتظروا انی معکم من المنتظرین۔ اگر تم اس کے طلبگار ہو تو انتظار کرو۔ میں بھی خدا کی دی ہوئی خبر کی بنا پر اس کے انتظار میں ہوں۔ " انتظار میں ہو " سے یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ کو اپنی قوم کو مبتلائے عذاب الٰہی دیکھنے کا ارمان تھا۔ حضرات انبیاء اپنی قوم کو عذاب سے بچانے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیتے ہیں لیکن جب قوم اپنی ضد کے سبب سے اپنے اندر وہ تمام اسباب و علامات جمع کرلیتی ہیں جن کے بعد عذاب آیا کرتا تو قدرتی طور پر نبی کے دل کو بھی ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اب مریض کا دم واپسیں ہے اور خدا کا حکم آیا ہی چاہتا ہے۔ اس انتظار میں تمنا کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حسرت واندوہ کے ساتھ ایک امر شدنی کا انتظار ہوتا ہے۔
Top