Tadabbur-e-Quran - Hud : 56
اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ١ؕ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
اِنِّىْ : بیشک میں تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر رَبِّيْ : میرا رب وَرَبِّكُمْ : اور تمہارا رب مَا : نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا اِلَّا : مگر هُوَ : وہ اٰخِذٌ : پکڑنے والا بِنَاصِيَتِهَا : اس کو چوٹی سے اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
میں نے اللہ، اپنے اور تمہارے رب پر بھروسہ کیا، جتنے بھی جاندار ہیں ان کی پیشانی اسی کی گرفت میں ہے۔ بیشک میرا رب نہایت سیدھی راہ پر ہے
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۔ مومن کی ڈھال توکل : یہ ہے مون و موحد کی وہ ڈھال جس کے بل پر حضرت ہود نے مذکورہ بالا چیلنج دیا۔ فرمایا کہ میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہاری بھی۔ مجال نہیں ہے کہ اس کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی گزند پہنچا سکے۔ مامن دابۃ الا ھو اخذ بنا صیتھا۔ کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہو۔ سب کی پیشانی اس کی مٹھی میں ہے۔ وہ جس کو جدھر چاہے اس کی چوٹی پکڑ کر موڑ دے اور جہاں چاہے روک لے۔ ان ربی علی صراط مستقیم، اور یہ نہ سمجھو کہ مجھے اپنے رب تک پہنچنے کے لیے بہت سی کج پیچ کی راہوں سے گزرنے اور تمہارے عقیدے کے مطابق بہت سے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ہو۔ بلکہ میری عقل اور میری فطرت کو اس سے براہ راست رطب ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے یہ کافی ہے کہ میں صدق دل سے اس کی طرف متوجہ ہوجاؤں، اگر میں متوجہ ہوں جاؤں تو وہ بالکل سیدھی راہ پر میرے سامنے ہے، یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا تک پہنچنے کا واسطہ ان کے اصنام ہی ہیں اس وجہ سے بغیر ان کی عبادت کے کوئی خدا کو نہیں پاسکتا۔ اپنے اسی عقیدے کو وہ یوں پیش کرتے تھے۔ کہ ما نعبدہم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب کردیں) ان کے اسی عقیدے کی بنا پر قرآن نے ان کا جرم یہ بتایا ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کی سیدھی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس سیدھی راہ کو کج کرنا چاہتے ہیں (الذین یصدون عن سبیل اللہ ویبغونہا عوجا : حضرت ہود نے اسی عقیدہ باطل کی تردید فرمائی ہے اور غور کیجیے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ جب تک آدمی کے اندر خدا کے قرب واتصال کا وہ تصور موجود نہ ہو جو ایک سچے موحد کے اندر ہوتا ہے اس وقت تک اس کو خدا پر وہ توکل نہیں ہوسکتا کہ حضرت ہود کی طرح ساری خدائی کو چیلنج کرسکے۔
Top