Tadabbur-e-Quran - Hud : 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
تو جب ابراہیم کا خود دور ہوا اور اس کو بشارت ملی تو وہ ہم سے قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگا
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْهُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ۔ قوم لوط کے لیے حضرت ابراہیم کی سفارش : یجادلنا، یعنی صار یجادلنا، مضارع سے پہلے فعل ناقص کے حذف کردینے کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ آیت 38 میں ویصنع الفلک بھی اسی اسلوب پر ہے۔ لفظ مجادلہ یہاں مجادلۂ حسن کے مفہوم میں ہے۔ یعنی حسن ادب اور محبت و اعتماد کے ساتھ کسی سے اپنی بات باصرار و الحاح منوانے کی کوشش کرنا۔ حضرت ابراہیم پر جب تک فرشتوں کا اصل منصوبہ واضح نہیں ہوا تھا اس وقت تک تو وہ متردد اور فکر مندر ہے لیکن جب ان کو بیٹے کی بشارت مل گئی اور خود اپنے باپ میں اطمینان ہوگیا تو انہیں قوم لوط کی فکر ہوئی اور وہ ان کے باب میں اللہ تعالیٰ سے سفارش میں لگ گئے اور اپنی بات منوانے کے لیے سارے جتن کرڈالے۔ ہم تورات سے اس مجادلہ کی تفصیل نقل کرتے ہیں تاکہ کچھ اندازہ ہوسکے کہ کس نوعیت کا مجادلہ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں پسندیدہ ہے۔ " پر ابرہام خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا۔ تب ابرہام نے نزدیک جا کر کہا کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا ؟ شاید اس شہر میں پچاس راست باز ہوں۔ کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس راستبازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گا ؟ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہوجائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا اور خداوند نے فرمایا کہ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راست باز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا۔ تب ابرہام نے جواب دیا، کہا کہ دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرات کی اگرچہ میں راکھ اور خاک ہوں، شاید پچاس راست بازوں میں پانچ کم ہوں۔ کیا ان پانچ کی کمی کے سبب سے تو تمام شہر کو نیست کر دے گا ؟ اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں۔ تب اس نے کہا میں ان چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا کہ خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس ملیں۔ اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی میں ایسا نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرات کی۔ شاید وہاں بیس ملیں۔ اس نے کہاں میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ تب اس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک اور اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں۔ اس نے کہا میں دس کی خاط بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ (پیدائش باب 18۔ 23، 32) حضرت ابراہیم کا اپنے رب کے ساتھ یہ مجادلہ اپنے اندر محبت، اعتماد، ناز اور دردمندی و ہمدردی کے جو پہلو سمیٹے ہوئے ہے زبان قلم ان کی تعبیر و تشریح سے قاصر ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر حضرت ابراہیم کی تحسین فرمائی۔
Top