Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 64
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ۙ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَنْزَلْنَا : اتاری ہم نے عَلَيْكَ : تم پر الْكِتٰبَ : کتاب اِلَّا : مگر لِتُبَيِّنَ : اس لیے کہ تم واضح کردو لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِي : جو۔ جس اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
اور ہم نے تم پر کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ تم ان پر اس چیز کو اچھی طرح واضح کردو جس میں وہ مختلف ہوگئے ہیں اور یہ ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۙ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔ پیغمبر ﷺ کی ذمہ داری کی آخری حد : یہ پیغمبر ﷺ کی ذمہ داری کی حد بتا دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہم نے تم پر اس لیے نہیں اتاری کہ لازماً تم اس کو لوگوں سے قبول ہی کرادو، اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے، تمہاری ذمہ داری صرف اس قدرت ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس دین حق کو اچھی طرح واضح کردو جس میں لوگ مختلف ہوگئے ہیں تاکہ لوگوں کے لیے گمراہی پر جمے رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ نبی ﷺ احساس فرض کی شدت کے سبب سے بسا اوقات یہ محسوس فرمانے لگتے کہ لوگ جو ہدایت کی راہ اختیار نہیں کر رہے ہیں تو اس میں کہیں آپ کی کسی کوتاہی کو دخل نہ ہو۔ آپ کی اس الجھن کو دور کرنے کے لیے آپ کی ذمہ داری بتا دی گئی کہ آپ پر صرف واضح طور پر دین کو پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور بس۔ آگے اس مضمون کو مزید واضح فرمادیا ہے۔ " ویوم نبعث فی کل امۃ شہید علیہم من انفسہم وجئنا بک شہیدا علی ھؤلاء ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء وھدی ورحمۃ وبشری للمسلمین : اور اس دن کو یاد کرو جس دن ہم ہر امت میں اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھائیں گے اور ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے تم پر کتاب اتاری ہے ہر چیز کو واضح کردینے کے لیے اور ہدایت و رحمت اور بشارت بنا کر اسلام اختیار کرنے والوں کے لیے " ھُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔۔ یعنی یہ کتاب ہدایت ہے اپنے آغاز کے لحاظ سے اور رحمت ہے اپنے انجام کے لحاظ سے۔ جو لوگ اس ہدایت کو قبول کرلیں گے بالآخر وہی خدا کی رحمت کے مستحق ٹھہریں گے۔
Top