Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 183
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ۙ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَنْزَلْنَا : اتاری ہم نے عَلَيْكَ : تم پر الْكِتٰبَ : کتاب اِلَّا : مگر لِتُبَيِّنَ : اس لیے کہ تم واضح کردو لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِي : جو۔ جس اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
اور ہم نے آپ پر (اے پیغمبر ! ) یہ کتاب تو صرف اس لئے اتاری ہے کہ آپ ان کے سامنے کھول کر بیان کردیں وہ سب باتیں جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں، اور تاکہ (اس عام فائدے کے علاوہ یہ کتاب بطور خاص) ان لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور عین رحمت ہو، جو ایمان رکھتے ہیں،3
122۔ حدیث رسول کے توسط کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھنا ممکن نہیں : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہا ہم نے اس قرآن کو آپ کی طرف اس لئے اتارا، تاکہ آپ کھول کر بیان کریں لوگوں کے لئے (اے پیغمبر ﷺ اس کی مراد گو کہ آپ کی تبیین وتعلیم کے بغیر قرآنی مطالب ومعانی تک رسائی کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اور پیغمبر کی اس تعلیم و تلقین اور توضیح و تشریح کو حدیث رسول کہا جاتا ہے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ حدیث رسول حجت قطعی ہے۔ اس کے بغیر قرآن پاک کو صحیح طور پر سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ سو قطعی گمراہ ہیں وہ لوگ جو حدیث رسول کی حجیت کا انکار کرکے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم حدیث رسول کے توسط کے بغیر قرآن کو از خود سمجھ سکتے ہیں اور وہ لوگوں کو قرآن پاک پر اکتفاء کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ سو قطعی گمراہ ہیں وہ لوگ جو حدیث رسول کی حجیت کا انکار کرکے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم حدیث کے توسط کے بغیر قرآن کو از خود سمجھ سکتے ہیں۔ اور وہ لوگوں کو قرآن پاک پر اکتفاء کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو اہل قرآن جیسے خوشنما اسماء والقاب کے ساتھ موسوم وموصوف کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ نہ اہل اسلام۔ بلکہ کھلے اہل کفر اور اصحاب زیغ وضلال ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن حکیم صرف ذاتی مطالعہ (self study) سے سمجھنے کی کتاب نہیں بلکہ استاذ سے پڑہنے یا کم از کم استاذ کی نگرانی میں اور اس کی ہدایت کے مطابق اس کا مطالعہ کرنے سے ہی انسان صحیح طور پر اس کتاب حکیم سے مستفید اور فیضاب ہوسکتا ہے ورنہ اس کے بغیر اس کے نور ہدایت سے فیضیابی کے مقابلے میں گمراہی کے خطرات زیادہ ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ کیونکہ یہ کتاب حکیم اگر خود پڑھنے اور ذاتی مطالعہ سے سمجھنے کی کتاب ہوتی تو اللہ کے رسول کو اپنی حیات طیبہ میں اور نور نبوت سے سرفرازی کے بعد پورے تئیس سال اس کی تعلیم وتبیین میں صرف کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی صلوات اللہ وسلامہ، علیہ۔ اس لئے حدیث رسول کی مددوساطت اور استاذ کی تعلیم و نگرانی کے بغیر اس کتاب حکیم کو سمجھنا اور اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنا ممکن نہیں۔ جب حضرات صحابہ کرام پڑھے اور سیکھے بغیر نہیں سمجھ سکے تو اور کون سمجھ سکتا ہے ؟ 123۔ قرآن ہدایت سے سرفرازی کے لئے اولین شرط ایمان ہے : پس اس کے نورہدایت سے سرفرازی انہیں لوگوں کو نصیب ہوسکتی ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہوں۔ یا کم از کم ان کے دلوں میں اس پر ایمان کے لئے طلب صادق اور تڑپ ہو۔ کیونکہ (یؤمنون) کا کلمہ کریمہ ایمان اور ارادہ ایمان دونوں کو عام اور انکو شامل ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کتاب سراسر ہدایت اور عین رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ سو اس ارشاد ربانی سے معلوم ہوا کہ قرآنی ہدایت و رحمت سے فیضیاب ہونے کیلئے اولین شرط اس پر سچا پکا ایمان ہے۔ کم از کم ایمان کی نیت اور اس کا ارادہ موجود ہو۔ اور ایمان کی یہ دولت جس قدر پختہ ہوگی اسی قدر یہ کتاب ہدایت و رحمت انسان کو نوازے گی۔ اللہم ارزقنا التوفیق والسداد بمنک وکرمک یا ارحم الراحمین۔ بہرکیف یہی کتاب حکیم ہے جو لوگوں کے اختلاف کا صحیح فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس پر ایمان سے بدایۃ ہدایت و راہنمائی نصیب ہوتی ہے۔ اور راہ حق پر آجانے کے بعد اس کی رحمتیں اور عنایتیں انسان کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں جو زندگی کے ہر مرحلے پر اس کو راہ حق و ہدایت پر قائم و مستقیم رکھتی ہیں اور آخرت میں اس کو جنت کی نعیم مقیم سے مشرف کردے گی، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (یھدیہم ربہم بایمانہم تجری من تحتہم الانہار فی جنت النعیم) (یونس : 9) ۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی دولت ہے۔ جبکہ اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top