Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں اسماعیل کی سرگزشت کو یاد کرو، بیشک وہ وعدے کا پکا اور رسول اور نبی تھا
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولا نَبِيًّا۔ حضرت اسماعیل کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ : اب یہ حضرت ابراہیم کی ذریت کے دوسرے سلسلہ کے سربراہ حضرت اسماعیل کا ذکر فرمایا۔ قریش انہی کی نسل سے اور انہی کی ملت کے پیرو ہونے کے مدعی تھے۔ اس سلسلہ میں پہلے رسول اور نبی حضرت اسمعیل ہوئے اور آخری نبی و رسول ہمارے نبی کریم ﷺ۔ ان کے ذکر سے مقصود خاص طور پر مشرکین عرب کو متنبہ کرنا ہے کہ وہ غور کریں کہ حضرت اسماعیل کا عمل اور ان کا پیام کیا تھا اور یہ ان سے کتنے بعید ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی وراثت کے مدعی ہیں اور اس زعم میں قرآن کی مخالفت کررہے ہیں در آنحالیکہ وہ سرتاسر ابراہیم و اسمعیل (علیہما السلام) کی ملت کی دعوت ہے۔ حضرت اسماعیل " صادق الوعد ": ان کی خاص صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ (وعدے کا سچا اور پکا تھا) ظاہر ہے کہ یہ اشارہ اس وعدے کی طرف ہے جو انہوں نے حضرت ابراہیم سے اپنے ذبح کیے جانے سے متعلق کیا۔ حضرت ابراہیم نے جب ان سے استمزاج کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں تو بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے بےدھڑک جواب دیا کہ آپ کو جو اشارہ ہوا ہے، آپ اس کی تعمیل کیجیے، انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ پر جب اس وعدے کی تکمیل کا وقت آیا تو انہوں نے بےجھجک اپنی گردن باپ کی چھری کے نیچے دے دی اور قریب تھا کہ چھری چل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کا ہاتھ روک دیا کہ بس ! مقصود امتحان تھا، وہ پورا ہوگیا اور باپ بیٹے دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداری اور راست بازی کی سند عطا ہوئی۔ یہ یاد رکھیے کہ " صادق الوعد " بظاہر مرکب تو صرف دو لفظوں سے ہے لیکن یہ مومن و مسلم کے کردار کی ایک جامع تعبیر ہے۔ اللہ کا جو بندہ اپنے رب سے کیے ہوئے عہد میں راست باز ہے اور اس کی خاطر اپنی گردن کٹوا سکتا ہے اس نے ایمان و اسلام کی معراج حاصل کرلی۔ رہے وہ لوگ جو ابراہیم و اسمعیل کے نام پر محض نسب فروشی اور لاف زنی کررہے تھے ان کے سامنے قرآن نے یہ آئینہ رکھ دیا ہے کہ وہ اس میں اپنی سیاہ روئی کا مشاہدہ کرلیں !
Top