Tafseer-e-Majidi - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور آپ (اس) کتاب میں اسمعیل (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کیجیے،81۔ بیشک وہ وعدہ کے (بڑے ہی) سچے تھے اور رسول تھے نبی تھے،82۔
81۔ یعنی اسمعیل (علیہ السلام) (2070 ؁ تا 1933 ؁ ق۔ م) بن ابراہیم (علیہ السلام) جو اپنے والد ماجد کی چھوٹی بیوی صاحبہ حضرت ہاجرہ شہزادی مصر کے بطن سے تھے۔ مصر اس وقت مرکز تمدن تھا۔ وہاں کی شہزادی قدرۃ تہذیب و تمدن کے لوازم سے آراستہ تھیں، ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ 82۔ آپ قوم جرہم کی جانب نبی مرسل تھے، جو اصلاوابتداء یمن کے باشندے تھے، مگر اب وادی مکہ میں آباد ہوگئے تھے، اور خالص عرب تھے۔ (آیت) ” صادق الوعد “۔ یعنی یہ صفت علاوہ دوسری صفات حسنہ کے آپ پر خصوصیت سے غالب تھی، (آیت) ” رسولا نبیا “۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 78۔ یہ خیال رہے کہ قرآن مجید نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کو رسول اور نبی دونوں یہاں کہا ہے، بہ خلاف اس کے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے لیے صرف نبی کا لفظ آیا ہے۔
Top