Tadabbur-e-Quran - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
تم نے دیکھا نہیں کہ ہم نے کافروں پر شیاطین کو چھوڑ دیا ہے، وہ انہیں خوب خوب اکسا رہے ہیں
تفسیر آیات 83 تا 84: أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا (83) فَلا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا عربی میں جب کہیں گے " ارسل الکلب علی الصیب " تو اس کے معنی ہوں گے کتے کو شکار پر چھوڑ دیا۔ اسی اسلوب پر یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کافروں پر شیاطین کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان کو دعوت حق کے خلاف جتنا اکسا سکتے ہیں اکسا لیں۔ " اَزَّ یَؤُزُّ " کے معنی برانگیختہ کرنے، بھڑکانے اور اکسانے کے ہیں۔ ان کافروں کے ساتھ یہ معاملہ اس سنت الٰہی کے مطابق ہوا جس کا ذکر سورة زخرف میں ہے کہ ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین : جو خدائے رحمان کی یاد دہانی سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں ہم ان پر کوئی شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ ان کا ساتھی بن جاتا ہے) (زخرف : 36)۔ پیغمبر کو تسکین و تسلی : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر ﷺ کے لیے تسکین و تسلی ہے کہ ان مخالفین کی مخالفت سے ہراساں اور پریشان نہ ہو اور ان کے بارے میں فیصلہ الٰہی کے ظہور کے لیے جلدی نہ کرو۔ ان کی مخالفت جتنی ہی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے یہ اتنے ہی اپنی تباہی سے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی حق دشمنی کے سبب سے اب ہم نے ان کے اوپر شیاطین کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان کو جتنا اکسا سکتے ہیں اتنا اکسا لیں تاکہ ان پر ہماری حجت تمام ہوجائے۔ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا، یعنی اب ان کے فیصلہ کرنے کے ظہور میں دیر نہیں ہے۔ ان کا پیمانہ لبریز ہوا چاہتا ہے اور گھڑی کی سوئی اپنے آخری نقطہ پر پہنچ رہی ہے۔ ہم ایک ایک منٹ کو پورے اہتمام کے ساتھ گن رہے ہیں اور وقت پورا ہوجانے کے بعد ایک پل کے لیے بھی ان کو مہلت دینے والے نہیں ہیں۔ یاد ہوگا، اس مجموعہ آیات کا آغاز حضرت جبریل امین کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے لیے تلقین صبر و انتظار سے ہوا تھا۔ وہی مضمون یہ دوسرے انداز سے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ادا ہوا ہے جس میں مخالفین کے لیے آخری تنبیہ بھی ہے اور آنحضرت ﷺ کے لیے معاملہ کا جلد فیصلہ ہوجانے کی بشارت بھی۔ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا اور فَلا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ کے الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ آیات اس زمانہ میں نازل ہوئی ہیں جب مخالفین کی مخالفت اپنی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کو بھی ہر وقت اس کشمکش کے فیصلہ کے لیے انتظار رہنے لگا تھا۔
Top