Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠ ۧ
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَابْعَثْ
: اور بھیج
فِيهِمْ
: ان میں
رَسُوْلًا
: ایک رسول
مِنْهُمْ
: ان میں سے
يَتْلُوْ
: وہ پڑھے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
آيَاتِکَ
: تیری آیتیں
وَ
: اور
يُعَلِّمُهُمُ
: انہیں تعلیم دے
الْكِتَابَ
: کتاب
وَ
: اور
الْحِكْمَةَ
: حکمت
وَيُزَكِّيهِمْ
: اور انہیں پاک کرے
اِنَکَ اَنْتَ
: بیشک تو
الْعَزِيزُ
: غالب
الْحَكِيمُ
: حکمت والا
اور اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے۔
“ ان میں انہی میں سے ایک رسول اٹھا، یعنی ہماری ذریت میں سے ”۔ چونکہ اس موقع پر حضرت ابراہیم کے ساتھ صرف حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے اور وہی اس وادی غیر ذی زرع میں بسائے جا رہے تھے اس وجہ سے اس دعا کا تعلق لازما انہی کی ذریت سے تھا۔ اس کا کوئی تعلق بھی حضرت اسحاق کی ذریت سے نہیں ہوسکتا۔ تورات کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ آخری نبی کی بعثت حضرت اسماعیل کی نسل سے ہونے والی تھی۔ تثنیہ باب 18 میں حضرت موسیٰ کی جو مشہور پیشین گوئی ہے اس میں فرمایا ہے“ تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا ”آگے چل کر ہے“ میں ان کے لیے انہیں کے بھائیوں میں سے ”۔ یہ الفاظ صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسماعیل ہی ہیں۔ گر بنی اسرائیل مراد ہوتے تو صحیح تعبیر“ انہی کے بھائیوں میں سے ”کی بجائے“ انہی میں سے ”کی ہوتی۔ اسی طرح“ تیرے ہی بھائیوں میں سے ”کی جگہ“ تمہارے ہی اندر سے ”کے الفاظ وارد ہوتے۔ علاوہ ازیں یہاں“ میری مانند ”کے الفاظ بھی قابل لحاظ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نبی کی بعثت کے پیشین گوئی کی گئی تھی ایک صاحب رسالت رسول کی تھی۔ قرآن مجید کی مذکورہ دعا میں اسی لحاظ سے رسول کا لفظ وارد ہوا ہے۔ ہم آگے کسی مناسب موقع پر رسول اور نبی کے فرق کو ظاہر کریں گے۔ یہاں جس رسول کی بعثت کے لیے دعا کی گئی ہے۔ اس کے تین مقاصد بتائے گئے۔ ایک تلاوت آیات، دوسرا تعلیم کتاب و حکمت، تیسرا تزکیہ۔ تلاوت آیات کا مفہوم : آیت لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں، جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جاسکے۔ اس پہلو سے آسمان و زمین کی ہر چیز آیت ہے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر چیز خدا کی قدرت و حکمت اور اس کی مختلف صفات خلق و تدبیر پر ایک دلیل ہے۔ اسی طرح وہ معجزات بھی آیت ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) سے ظاہر ہوئے اس لیے کہ وہ بھی اپنے پیش کرنے والوں کی سچائی پر دلیل تھے۔ علی ہذا القیاس قرآن مجید کے الگ الگ جملوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ فی الحقیقت ان میں سے ہر آیت کی حیثیت ایک دلیل وبرہان کی ہے جس سے خدا کی صفات اور ان کے احکام و قوانین اور اس کی مرضیات کا علم ہوتا ہے۔“ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ”کے الفاظ سے اس زور اور اختیار کا اظہار ہورہا ہے، جس سے مسلح ہو کر خدا کا ایک رسول اس دنیا میں آت ہے۔ یہ واضح رہے کہ رسول محض ایک خوش الحان قاری کی طرح لوگوں کو قرآن سنانے نہیں آتا، بلکہ وہ خدا کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو آسمان و زمین کے خالق ومالک کے احکام و فرامین اور اس کے دلائل وبراہین سے آگاہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں وحی الٰہی کے لیے آیات کے لفظ سے اس حقیقت کا بھی اظہار ہورہا ہے کہ خدا کا دین تحکم اور جبر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر دلائل وبراہین پر مبنی ہے اور اس کے ہر ٹکڑے کے اندر اس کی دلیل ہے۔ تعلیم کتاب و حکمت کا مفہوم : اب آئیے تعلیم کتاب و حکمت کے الفاظ پر غور فرمائیے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم، تلاوت سے ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ تلاوت آیات تو یہ ہے کہ رسول نے لوگوں کو آگاہ کردیا کہ خدا نے اس کے اوپر یہ وحی نازل کی ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کے لیے اس کی مشکللات کی وضاحت کی جائے، اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے، اس کے مقدرات کھولے جائیں اور اس کے مضمرات بیان کیے جائیں اور اس توضیح وبیان کے بعد بھی اگر لوگوں کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں تو ان کے سوالوں کے جواب دیے جائیں۔ مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کے سامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر فکر و تدبر کی صلاحیت اور کتاب الٰہی پر غور کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار ہوجائے۔ یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزا میں سے ہیں اور ہر شخص جس نے آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ کے لیے تعلیم کتاب کے یہ تمام طریقے اختیار فرمائے۔ تعلیم کے ساتھ یہاں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک کتاب کا، دوسری حکمت کا۔ کتاب سے مراد تو ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے۔ اس لفظ کی تحقیق ہم اس سورة کی آیت 2 کی تفسیر کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں۔ لفظ حکمت کی تحقیق مولانا فراہی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں جو بیان فرمائی ہے اس کا ضروری حصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔“ رہی حکمت تو وہ تعبیر ہے اس قوت و صلاحیت کی جس سے انسام معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ حضرت داود کی تعریف میں ارشاد ہوا ہے“ واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب۔ ہم نے اس کو حکمت عطا کی اور فیصلہ معاملات کی صلاحیت ”۔ یہاں فصل الخطاب کے لفظ سے اس اثر کو بیان کیا ہے جو حکمت کا ثمرہ ہے۔ جس طرح فیصلہ معاملات کی صلاحیت حکمت کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی طرح اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اس کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی وجہ سے اہل عرب حکمت کا لفظ انسان کی اس قوت وصلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت اخلاق کی جامع ہوتی ہے۔ چناچہ دانش مند اور مہذب آدمی کو حکم کہا جاتا ہے اور جو بات عقل اور دل دونوں کے نزدیک بالکل واضح ہو اس کو حکمت سے تعبیر کرتے ہیں ”۔ حکمت کا ذکر یہاں کتاب کے ساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تعلیم حکمت تعلیم کتاب سے ایک زائد شے ہے، اگرچہ یہ حکمت سر تا سر قرآن حکیم ہی سے ماخوذ و مستنبط ہو۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک جو لوگ حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں، ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ حکمت چونکہ حکیمانہ بات کو بھی کہتے ہیں اور حکیمانہ بات کہنے کی صلاحیت کو بھی، اس وجہ سے تعلیم حکمت کے معنی جس طرح کسی کو کوئی حکیمانہ بات بتا دینے کے ہیں اسی طرح اس کے معنی لوگوں کے اندر حکمت کی صفت و صلاحیت پیدا کرنے کے بھی ہیں۔ رسول کا تیسرا مقصد تزکیہ بتایا گیا ہے۔ لفظ تزکیہ دو مفہوموں پر مشتمل ہے۔ ایک پاک و صاف کرنے پر، دوسرے نشوونما دینے پر، ہمارے نزدیک یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جو چیز مخالف و مزاحم رواید و مفاسد سے پاک ہوگی وہ لازماً اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق پروان بھی چڑھے گی۔ انبیاء (علیہم السلام) نفوس انسانی کا جو تزکیہ کرتے ہیں اس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال و اخلاق کو غلط چیزوں سے پاک صاف بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال و اخلاق کو نشوونما دے کر ان میں مفاسد اور مخالف و مزاحم چیزوں کے بالمقابل استقلال کے ساتھ سینہ سپر رہنے اور استقامت دکھانے کی قوت بھی پیدا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کتاب کے مقابلہ میں فوس کا تزکیہ کہیں زیادہ دیدہ ریزی، مشقت اور صبر وریاض کا طالب ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں اس کا ذکر تمام دین و شریعت کے غایت و مقصد کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت ہم انشاء اللہ آگے کسی موزوں مقام پر کریں گے۔ عزیز اور حکیم کا مفہوم : آیت کے خاتمہ پر خدا کی دو صفتوں۔ عزیز و حکیم۔ کا حوالہ ہے۔ عزیز کے معنی غالب عزت و قوت والے کے ہیں۔ یعنی وہ ذات جو پوری قوت وصولت اور پورے اختیار و اقتدار کے ساتھ اس کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے۔ حکیم کے معنی ہیں جس کے ہر کام میں حکمت، مصلحت اور مقصد وغایت ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ ت عالیٰ اس کائنات پر پوری قوت اور پورے غلبہ کے ساتھ حاوی اور متصرف ہے لیکن اس کے غلبہ و اقتدار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے زور میں جو چاہے کر ڈالے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ یہاں ان دونوں صفتوں کا حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جو عزیز و حکیم ہے، اس کی عزت و حکمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پیدا کی ہوئی اس مملکت میں اپنا سفیر اور پیغمبر بھیجے جو اس کی رعیت کو اس کے احکام وقوانین سے آگاہ کرے اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دے۔ نبی ﷺ کے فرائض منصبی : منکرین سنت کا دعوی یہ ہے کہ نبی ﷺ کی اصلی ذمہ داری بحیثیت پیغمبر کے صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر جو وحی نازل فرمائے آپ وہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد بحیثیت رسول کے آپ کا فرض ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر کوئی ذمہ داری ہی ہے اور نہ وحی الٰہی یا بالفاظ دیگر قرآن، کے سوا آپ کے کسی قول یا فعل کی کوئی مستقل شرعی اہمیت ہی ہے۔ ہمارے نزدیک منکرین سنت کے اس دعوے کی تردید کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت ہی کافی ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ کے فرائض منصبی کی جو تفصیل کی گئی ہے۔ اس میں صرف لوگوں کو قرآن سنا دینے ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متعدد دوسری چیزوں کا بھی ذکر ہے اور اس آیت سے واضح ہے کہ ان چیزوں کا ذکر بھی آپ کے فرائض نبوت ہی کی حیثیت سے ہوا ہے۔ آیت پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ فرمایا ہے“ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ”اے ہمارے رب، ان میں بھیجیو ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سنائے تیری آیتی اور ان کو تعلیم دے کتاب اور حکمت کی اور ان کا تزکیہ کرے۔ بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ اس دعا کے الفاظ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے فرمائی تھی۔ اسی دعا کے مطابق جب آنحضرت کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر اپنے اس احسان عظیم کا اظہار یوں فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ ، وہی خدا ہے جس نے بھیجا امیوں (بنی اسماعیل) میں ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیتیں اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بیشک یہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ ان دونوں آیتوں پر غور کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جن صفات کے پیغمبر کے لیے دعا کی تھی آنحضرت ﷺ بعینہ انہیں صفات کے ساتھ مبعوث ہوئے اور آپ نے امیوں کے اندر عملاً وہ سارے کام انجام دیے بھی جن کے لیے حضرت ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی تھی۔ ان دونوں ہی مقامات میں جہاں تک آنحضرت ﷺ کے فرائض کا تعلق ہے ان کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف یہ کہ پہلی آیت میں تزکیہ کا ذکر سب کے آخر میں ہے اور دوسری آیت میں تعلیم کتاب و حکم ت سے پہلے لیکن تلاوت آیات کے بعد۔ یہ فرق کوئی خاص اہمیت رکھنے والا فرق نہیں۔ تزکیہ کے مقدم و موخر ہونے کی وجہ ایک دوسرے مقام میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور بعثت انبیاء کا اصل مقصود ہے اور جو چیز کسی کام میں غایت و مقصود کی حیثیت رکھتی ہے وہ عمل میں اگرچہ موخر ہوتی ہے لیکن ارادہ میں مقدم ہوتی ہے اس وجہ سے اصل اسکیم میں اس کا ذکر مقدم بھی ہوسکتا ہے اور موخر بھی۔ چناچہ اسی اعتبار سے تزکیہ کا ذکر ایک آیت میں مقدم ہوا ہے دوسری میں موخر۔ اس ترتیب کے فرق کے علاوہ دوسری ساری باتیں دونوں آیتوں میں بالکل مشترک ہیں اور ان میں نبی ﷺ کے مندرجہ ذیل فرائض بتائے گئے ہیں۔ 1۔ تلاوت آیات۔ 2۔ تعلیم کتاب و حکمت۔ 3۔ تزکیہ۔ ان میں سے جہاں تک پہلی چیز۔ تلاوت آیات۔ کا تعلق ہے، ہم بلا کسی بحث و نزع کے تسلیم کیے لیتے ہیں کہ اس سے مراد لوگوں کو قرآن مجید سنانا ہی ہے۔ دین و دانش دونوں ہی سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ خدا کے ایک رسول کا اولین فریضہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچائے لیکن اس تلاوت کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو پوری کتاب بیک دفعہ سنادی گئی ہو بلکہ یہ 23 سال کی وسیع و طویل مدت میں تھوڑی تھوری کر کے اتاری گئی اور اسی تدریج کے ساتھ پیغمبر ﷺ نے لوگوں کو سبقاً سبقاً اس کی تعلیم دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب کوئی سہل اور سپاٹ کتاب نہیں ہے بلکہ یہ نہایت گہرے علوم و معارف اور اعلی اسرار و حقائق کی کتاب ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے یہ ضروری ہوا کہ یہ سبق سبق کر کے پڑھائی جائے تاکہ لوگوں کی اس کے خزانوں تک رسائی ہوسکے۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں واضح کیا ہے وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ (اسراء :106) اور ہم نے اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ تو لوگوں کو اس کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔ قرآن حکیم کی مذکورہ بالا خصوصیت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ پیغمبر ﷺ اس کو ایک قاری کی طرح صرف سناد ینے ہی پر اکتفا نہ فرمائیں بلکہ ایک معلم کی طرح پوری دلسوزی اور پورشی شفقت کے ساتھ لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیں۔ چناچہ اسی بنا پر تلاوت کے ساتھ ساتھ آپ کا دوسرا فرض تعلیم کتاب بتایا گیا۔ یہ تعلیم کتاب کا فریضہ آپ کے فرائض نبوت ہی کا ایک جز اور آپ کا معلم ہونا آپ کے منصب رسالت ہی کا ایک پہلو ہے۔ اس وجہ سے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو کچھ لوگوں کو سکھایا اور بتایا اس کو آپ کے فرائض نبوت سے نہ تو خارج کیا جاسکتا اور نہ اس کا درجہ اصل کتاب کے مقابل میں گرایا ہی جاسکتا۔ اب غور فرمائے کہ اس تعلیم کے تقاضے کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک بالکل ابتدائی تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن میں جو شرعی اصطلاحات مثلاً زکوۃ صلوۃ، زکوۃ، حج، صیام، طواف، عمرہ، نکاح، طلاق وغیرہ استعمال ہوئی ہیں لیکن ان کی عملی شکلیں واضح نہیں کی گئی ہیں ان کو آپ اچھی طرح لوگوں پر واضح کردیں تاکہ لوگ عملی زندگی میں ان کو اختیار کرسکیں اور ان کے مختلف اجزاء کا دین میں جو مقام ہے اس کو متعین کرسکیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن میں فکر و عمل کی تصحیح کے جو اصول دیے گئے ہیں ان کے لوازم و تضمنات کے ضروری گوشے واضح کردیے جائیں تاکہ ان ابواب میں مزید رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ روشنی کے میناروں کا کام دیں۔ اسی طرح ایک چیز یہ بھی ہے کہ قرآن میں جو احکام شریعت دیے گئے ہیں ان کی حیثیت صرف اصولی احکام کی ہے۔ ان میں سے ہر باب کے تحت بیشمار صورتیں ایسی آتی ہیں جن میں احکام کا تعین معلم کی رہنمائی اور اجتہاد پر چھور دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اجتہاد کے لیے امت کو بہترین رہنمائی ان مثالوں ہی سے مل سکتی تھی جو اس کتاب کے معصوم معلم نے اپنے اجتہاد سے قائم کیں۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ قرآن اجتماعی زندگی کا ایک نظام بھی پیش کرتا ہے لیکن اس کے صرف چاروں گوشے متعین کردینے والے اصول دے کر اس کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے عملی ڈھانچہ کے معاملہ کو معلم کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس چیز کو بھی لوگوں نے حضور ہی کی تعلیم سے سیکھا۔ ان کے علاوہ ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ زیر بحث آیت میں صرف تعلیم کتاب ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تعلیم حکمت کا بھی ذکر ہے۔ تعلیم حکمت تعلیم شریعت سے بہت وسیع چیز ہے۔ اس سے مراد، جیسا کہ اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم بیان کرچکے ہیں، وہ دانش و بینش اور بصیرت و معرفت ہے جو زندگی کے ان بعید گوشوں میں بھی انسان کی رہنمائی کرتی ہے جہاں رہنمائی کرنے والی اس کے سامنے کوئی اور روشنی نہیں ہوتی۔ اب غور کیجیے کہ یہ ساری باتیں تعلیم کے تقاضوں میں سے ہیں یا نہیں ؟ اور آنحضرت ﷺ ان ساری چیزوں کی تعلیم کے لیے بحیثیت ایک خدائی معلم کے مامور تھے یا نہیں ؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور ظاہر ہے کہ ان کا جواب اثبات ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے تو غور کیجیے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی اس حیثیت میں جو کچھ کہا اور کیا ہے اس کو آپ کے فرائض نبوت کے دائرے سے الگ کس طرح کیا جاسکتا ہے اور اس کی اہمیت کو گھٹا یا کس طرح جاسکتا ہے ؟ اور پھر اس بات پر غور کیجیے کہ احادیث میں ان چیزوں کے سوا کیا ہے جو آنحضرت ﷺ نے بحیثیت معلم کتاب و حکمت ہونے کے بتائی ہیں یا ان پر عمل کرکے دکھایا ہے ؟ اسی طرح اب تزکیہ پر غور کیجیے۔ تزکیہ کا عمل ظاہر ہے کہ تعلیم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور سیع الاطراف ہے۔ اوپر ہم واضح کر آئے ہیں کہ اس لفظ میں پاک صاف کرنے اور نشوونما دینے، دونوں کا مفہوم شامل ہے یہ بیک وقت علمی بھی ہے اور عمی بھی، ظاہری بھی باطنی بھی، مادی اور جسمانی بھی ہے اور عقلی و روحانی بھی، نیز یہ انفرادی بھی ہے اور سماجی واجتماعی بھی۔ مختصراً چند بنیادی تقاضے اس کے بھی سامنے رکھ لیجیے۔ اس کا ایک ضروری تقاضا تو یہ ہے کہ لوگوں کے اذہان، اعمال اور اخلاق پر خورد بینی نگاہ ڈال کر ان جراثیم سے ان کو پاک کیا جائے جو روحانی اور اخلاقی بیماریوں کے سبب بنتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اندر نیکیوں کی تخم ریزی کی جائے جو انسان کے ظاہرو باطن کو سنوارتی اور اس کے عادات و خصائل کو مہذب بناتی ہیں۔ اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ ہر خوبی ان کے اندر جڑ پکڑ جائے اور ہر برائی کے خلاف طبیعتوں میں نفرت بیٹھ جائے۔ اس کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس تعلیم و تربیت سے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا جائے جو تزکیہ نفوس کے لیے ایک وسیع تربیت گاہ کا کام دینے لگ جائے، جو شخص بھی اس میں اٹھے اسی ماحول کے اثرات لیے ہوئے اٹھے اور جو شخص بھی اس کے اندر داخل ہوجائے اس پر اسی کا رنگ چڑھ جائے۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ خیال بڑا مغالطہ انگیز ہے کہ آنحضرت ﷺ کا فریضہ منصبی بحیثیت رسول کے رف یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پہنچا دیں۔ قرآن کا پہنچا دینا آپ کے فرائض منصبی کا صرف ایک جزو تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ آپ ایک معلم کی طرح لوگوں کو اس قرآن کی تعلیم دیں، اس کے مضمرات و تضمنات، اس کے اجمالات و اشارات اور اس کے اسرار و حقائق لوگوں پر واضح کردیں، اس کے عجائب حکمت کی روشنی میں افراد اور معاشرہ کی تربیت کے اصول و فروع بھی متعین فرمائیں اور ان اصولوں کے مطابق لوگوں کا تزکیہ بھی کریں۔ یہ سارے کام آپ کے فرائض نبوت میں شامل تھے۔ اس وجہ سے ان مقاصد کے تحت آپ نے جو کچھ بتایا یا جو کچھ کیا اس سب کو امت نے اسی طرح واجب التعمیل سمجھا جس طرح قرآن کو سمجھا اور اسی اہمیت کے ساتھ اس کی حفاظت اور اس کے نقل و روایت کا اہتمام کیا۔ اس کے کسی جزو کے متعلق یہ سوال تو اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس کا انتساب آنحضرت ﷺ کی طرف پوری صحت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں لیکن اس کو دین و شریعت سمجھنے سے انکار کرنا خود قرٓن مجید کے انکار کے ہم معنی ہے۔
Top