Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی ہو، جب جب چمک جاتی ہو یہ چل پر تے ہوں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہو رک جاتے ہوں۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھوں کو سلب کرلیتا، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
’’جب بجلی چمکتی ہے تو چند قدم چلتے ہیں، جب غائب ہو جاتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ ان کی اس حیرانی و پریشانی کی تصویر ہے جس میں قرآن مجید کے نزول کے بعد وہ مبتلا ہو گئے تھے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ قرآن کا مقابلہ کس طرح کریں۔ اس کی چمک اور دمک نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی تھی اور اس کی برقِ خاطف سے ان کے لیے بچنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ وہ حیران و درماندہ تھے کہ کیا کریں۔ اس حیرانی و درماندگی کی حالت میں اگر کوئی بات بنتی نظر آتی تھی تو بنانے کی کوشش کرتے تھے لیکن کسی حقیقت کا مقابلہ محض سخن سازی سے زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہے اس وجہ سے جب بنائی ہوئی بات بگڑ جاتی ہے تو پھر حیران و درماندہ ہو کر بغلیں جھانکنے لگتے۔ چنانچہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ یہ مسلمانوں کو چکمہ دینے کے لیے یہ کہتے تھے کہ تم خدا اور آخرت پر ایمان کے مدعی ہو تو خدا اور آخرت پر تو ہم بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن جب اس پر یہ گرفت ہوجاتی کہ اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو سیدھے سیدھے مسلمانوں کی طرح کیوں ایمان نہیں لاتے تو پھر مجبور ہو کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور ان کو گالیاں دینے لگتے۔
Top