Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں رہو جنت میں اور اس میں سے کھاؤ فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے بن جاؤ گے
وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ: شجرہ پر الف لام داخل ہے جس سے یہ بات تو واضح ہے کہ جہاں تک آدم اور حوا علیہما السلام کا تعلق ہے، ان کو یہ درخت تعین اور تخصیص کے ساتھ بتا دیا گیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ درخت کس چیز کا تھا؟ تو اس سوال کا جواب نہ تو قرآن مجید نے دیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی میں اس کا جواب موجود ہے اس وجہ سے اس کو معلوم کرنے کی کوشش ایک لاحاصل کوشش ہے۔ ہمارے نزدیک اس بارے میں صحیح مسلک امام ابن جریر کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ“ہم تعین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ درخت کس چیز کا تھا کیونکہ اس کے تعین کے لئے کوئی دلیل نہ تو ہمیں قرآن ہی میں ملتی ہے اور نہ حدیث ہی میں، پھر آخر کوئی شخص کوئی بات کہے تو کس سند پر”۔ ہمارے نزدیک اس درخت کو معلوم کرنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے۔ اصل چیز جو یہاں قرآن مجید بتانی چاہتا ہے وہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح فرشتوں اور جنات کی وفاداری اور اطاعت کا امتحان آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر لیا اسی طرح آدم علیہ السلام کی اطاعت و وفاداری کا امتحان ان کے لئے جنت کے درختوں میں سے ایک درخت کو حرام ٹھہرا کر لیا۔ نعمتوں سے بھری ہوئی اس جنت میں صرف ایک درخت ایسا تھا جس سے فائدہ اٹھانے سے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا گیا تھا۔ لیکن انسان کی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جس چیز سے وہ روک دیا جاتا ہے اسی کا وہ زیادہ حریص بن جایا کرتا ہے۔ چنانچہ ابلیس نے آدم علیہ السلام کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ان کو یہ سمجھانا شروع کر دیا کہ زندگی جاوداں اور ملک لازوال کا راز اگر مضمر ہے تو بس اسی درخت کے پھلوں میں ہے جس سے ان کو محروم کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آدم علیہ السلام شیطان کے اس چکمے میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھا بیٹھے۔ لیکن یہ غلطی کر گزرنے کے بعد شیطان کی طرح اپنی غلطی پر ضد نہیں کی بلکہ اس پر نادم ہوئے اور توبہ کی۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال اس دنیا میں ہمارے سامنے ہے۔ اس زمین کی ہر نعمت ہمارے لئے مباح ہے۔ صرف گنتی کی چند چیزیں جن سے خدا نے ہمیں روکا ہے لیکن ہم میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ وہ شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے سبب سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اور دنیا کی ساری ترقی اور کامیابی کا راز بس انہی چند چیزوں کے اندر چھپا ہوا ہے جن سے خدا نے روک دیا ہے اور پھر ستم یہ ہے کہ نافرمانی کر کے اپنے باپ کی طرح نادم ہونے اور توبہ کرنے کے بجائے ابلیس کی طرح اکڑتے اور ضد کرتے ہیں۔ تورات میں اس درخت کو خیروشر کی معرفت کا درخت کہا گیا ہے۔ یہ بات ہے تو دلچسپ لیکن ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ غالباً اہل تورات نے یہ بات اول اول بطور ایک تاویل کے اس وجہ سے اختیار کی ہوگی کہ اس درخت کے پھل کھانے کا اثر یہ بیان کیا گیا ہے کہ آدم وحوا دونوں ننگے ہو کے رہ گئے۔ ابتداءً تو یہ بات ایک تاویل کی حیثیت سے سامنے آئی ہو گی لیکن بعد میں دل پسند ہونے کے سبب سے تحریف کے چور دروازے سے اس نے اصل متن کی جگہ حاصل کر لی ہوگی قرآن مجید نے اس بات کا ذکر تو کیا ہے کہ اس درخت کے پھل کھانے کے بعد آدم علیہ السلام ننگے ہوگئے لیکن قرآن سے یہ اشارہ نہیں نکلتا کہ یہ ننگے ہوجانا ان کے اندر دفعۃً عقل وشعور کے بیدار ہوجانے کا نتیجہ تھا بلکہ یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر جو ظلم کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جنت کے لباس سے محروم ہوگئے۔ اگر آدم علیہ السلام اس درخت کے پھل کھانے سے پہلے اتنے بے شعور تھے کہ ان کو اپنی ستر کا بھی کوئی احساس نہیں تھا تو اس وقت ان کا کسی امتحان میں ڈالا جانا اور وہ بھی ابلیس جیسے زیرک دشمن کے ہاتھوں ایک بالکل خلاف عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ اس امتحان سے پہلے ان کے اندر اتنی سوجھ بوجھ کا ہونا ناگزیر تھا کہ وہ شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے مقابل میں اپنے خیروشر کو سمجھ سکیں۔ اگر وہ اس سوجھ بوجھ سے عاری تھے تو ان کا شیطان کے فتنے میں پڑ جانا بالکل واضح تھا اور خدا کے انصاف سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ ان کو شیطان کے مقابل میں لاکھڑا کرتا اور پھر ان کی لغزش پر ان کی گرفت کرتا۔
Top