Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 5
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب انْصُرْنِيْ : میری مدد فرما بِمَا : اس پر كَذَّبُوْنِ : انہوں نے مجھے جھٹلایا
تو اس نے دعا کی کہ اے میرے رب ! تو اس چیز سے میری مدد کر جس میں انہوں نے مجھ کو جھٹلایا
قال رب انصرنی بما کذبون (26) وعدہ عذاب کے ظہور کے لئے حضرت نوح کی دعا یعنی جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا، حضرت نوح نے یہ دعا کی کہ اے رب ! اب تو میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور اس وعدہ عذاب کو پورا کر کے میری مدد فرما جس سے میں نے ان کو شب و روز ڈرایا لیکن انہوں نے میری سنی ان سنی کردی اور اس عذاب کے بارے میں جھٹلا دیا۔ حضرت نوح کی اس دعا کا ذکر، تفصیل کے ساتھ سورة نوح میں آئے گا۔ یہاں اس دعا کے معاً بعد، آگے والی آیت میں، حضرت نوح کی کشتی بنانے اور عذاب سے بچنے کے لئے تبادلوں کی ہدایت ہوئی جو اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ حضرت نوح کی یہ دعا اسی وعدہ عذاب کے ظہور کے لئے تھی۔ آگے اس سلسلہ میں دوسرے انبیاء کی زبانی بھی یہی دعا منقول ہے۔ ملاحظہ ہو آیت 29 اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ اطمینان دلایا گیا کہ قال عما قلیل لیصبحن ندمین فاخذتھم الصیحتہ (ارساد ہوا کہ بہت جلد یہ اپنی کرتوت پر پچھتائیں گے تو خدا کی ڈانٹ نے ان کو آدبوچا) یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مخالفین کی کشمکش میں آخری مرحلہ ہمیشہ یہی پیش آیا ہے کہ جس عذاب سے انہوں نے اپنی قوم کو ڈرایا قوم کے سرکشوں نے اسی عذاب کا مطالبہ کیا اور جب اللہ تعالیٰ کی سنت امہال کے تحت اس میں تاخیر ہوئی تو مکذبین نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ اعلان کردیا کہ چونکہ تم وہ عذاب نہیں لا سکے جس کی دھمکی رات دن سنا رہے ہو اس وجہ سے تم بھی جھوٹے ہو اور یہ عذاب کی دھمکی بھی جھوٹی ہے۔ یہی مرحلہ ہے جس میں حضرات انبیاء (علیہم السلام) نے دعا فرمائی ہے کہ ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیر الفتحین (اعراف :89) (اے ہمارے رب ! اب ہمارے اور ہمار قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے) اسی مرحلہ میں حضرت نوح نے بھی یہ دعا فرمائی ہے اور اس کا مطلب وہی ہے جو ہم نے اوپر واضح کیا صاحب کشاف نے آیت کا یہ مطلب لیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں انصرنی با مجاز ماوعدتھم من العذاب دھوماکذبوہ فیہ یعنی اے رب تو اس وعدہ عذاب کو پورا کر کے میری فرما جس سے تو نے ان کو ڈرایا ہے۔ یہی چیز ہے جس کے بارے میں ان کی قوم کے لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔
Top