Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 136
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ عَلٰي : پر۔ کی صَلَوٰتِهِمْ : اپنی نمازیں يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرنے والے ہیں
اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں
والذین ھم علی صلوتھم یحافظون (9) یہاں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نماز ہی سے اہل ایمان کی صفات کا ذکر شروع ہوا تھا اور اسی پر آکر ختم ہوا۔ شروع میں نماز کا ذکر اس کی روح یعنی خشوع کے پہلو سے ہوا اور آخر میں اس کی محافظت اس کے رکھ رکھائو اور اس کی دیکھ بھال کے پہلو سے ہوا۔ اس لئے کہ وہ برکات جو نماز کی بیان ہوئی ہیں اسی صورت حال میں حال ہوتی ہیں جب اس کے اندر خشوع کی روح ہو اور اس کی برابر رکھوالی بھی ہوتی رہے۔ یہ باغ جنت کا پودا ہے جو پوری نگہداشت کے بغیر پروان نہیں چڑھتا ذرا غفلت اور ناقدری ہوجائے تو یہ بےثمر ہو کے رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس کے بالکل ہی سوکھ جانے کا ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر اس کی حقیقی برکات سے بہرہ مند ہونے کی آرزو ہے تو شیاطین کی تاخت سے اس کو بچایئے اور وقت کی پوری پابندی کے ساتھ آنسوئوں سے اس کو پہنچتے رہیے۔ تب کچھ اندازہ ہوگا کہ رب نے اس کے اندر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے ! ! یہ بات کہ نماز ہی تمام دین کی محفاظ ہے قرآن میں جگہ جگہ بیان ہونی ہے۔ ہم نے دوسرے مقام میں ان تمام مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔ یہ دین کی اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ نماز ہی سے تمام نیکیاں نشو و نما بھی پاتی ہیں اور وہی اپنے حصار میں ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اگر نماز وجود میں نہ آئے تو دوسری نیکیاں بھی وجود میں نہیں آسکتیں، اور اگر نماز ہدم کردی جائے تو دین و اخلاق کا سارا چمن تاراج ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جس نے نماز ضائع کردی تو وہ باقی دین کو بدرجہ الولیٰ ضائع کر دے گا۔
Top