Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hajj : 25
وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ
وَتَنْحِتُوْنَ : اور تم تراشتے ہو مِنَ الْجِبَالِ : پہاڑوں سے بُيُوْتًا : گھر فٰرِهِيْنَ : خوش ہوکر
جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو اس میں شرارت سے کجروی (وکفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزا چکھائیں گے
(25) بیشک جن لوگوں نے رسول اکرم ﷺ اور قرآن حکیم کے ساتھ کفر کیا جیسا کہ حضرت ابو سفیان اور ان کے ساتھی (اس واقعہ تک حضرت ابوسفیان اسلام نہیں لائے تھے) اور لوگوں کو دین خداوندی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں اور مسجد حرام سے بھی روکتے ہیں جب کہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام حدیبیہ کے سال عمرہ کے لیے تشریف لے جارہے تھے حالانکہ جس مقام کو ہم نے سب آدمیوں کے لیے حرم اور قبلہ بنایا ہے اس میں سب برابر ہیں اس حرم کے اندر رہنے والا بھی اور باہر سے آنے والا بھی اور جو شخص حرم میں کسی خلاف دین کام کی ظلم کے ساتھ ابتدا کرے گا تو ہم اسے دردناک عذاب دیں گے یعنی سخت ترین اس کو سزا دیں گے تاکہ اس کو پھر کسی پر ظلم کرنے کی جرأت نہ ہو، یہ آخری آیت عبداللہ بن انس بن حنظل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے مدینہ منورہ میں ایک انصاری کو جان بوجھ کر قتل کردیا اور پھر اسلام سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ میں جا کر پناہ حاصل کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو شخص قصدا قتل ظلم وشرک کا ارتکاب کر کے مکہ مکرمہ میں پناہ لے گا تو ہم اس کو درد ناک سزا دیں گے یعنی اسے کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی پناہ دی جائے گی تاوقتیکہ حرم سے باہر سے نہ نکلے پھر اس پر دفعہ گرائی جائے گی۔ شان نزول : (آیت) ”ومن یرد فیہ“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن انیس کو دو افراد کے ساتھ بھیجا ایک ان میں مہاجر تھے، دوسرے انصاری چناچہ تینوں نے آپس میں نسب پر فخر کیا، عبداللہ بن انیس کو غصہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کردیا پھر اسلام سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
Top