Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور انہوں نے ظلم اور گھمنڈ کے سبب سے ان کا انکار کیا حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو تسلیم کیا تو دیکھو کیا ہوا ان مفسدین کا انجام !
وجحدوا بھا واستیف تھا انفسھم ظلماً وعلوا فانظر کیف کان فیہ المفسدین (14) منکروں کے انکار کا اصل سبب ان کا ظلم اور اعلو ہوتا ہے یہ آخر میں اصل مدعا سامنے رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے یہ سرگزشت سنائی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ دعوت حق کو قبول نہیں کرنا ہتے وہ ایک دو نہیں بلکہ نو نو معجزات دیکھ کر بھی اپنے انکار کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ان کے دل اقرار کرتے ہیں کہ داعی کی بات حق ہے لیکن زبانوں سے وہ برابر اس کی تکذیب ہی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے انکار کی اصل علت یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر اچھی طرح واضح نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل سبب ان کا …ورعلتو ہوتا ہے۔ وہ خدا اور اس کے بندوں کے حقوق تلف کرنے کے خوگر ہوجاتے ہیں اور انہیں یہ بھی اس سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے اور ان کے اندر استکبار پیدا ہوجاتا ہے اس کے سبب سے اپنی خواہش کے خلاف کسی بڑے سے بڑے حق کے آگے بھی جھکنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے۔ ایسے مفسدین کا انجام وہی ہوتا ہے جو فرعون اور اس کی قوم کا ہوا۔
Top