Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 79
فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ
فَتَوَكَّلْ : پس بھروسہ کرو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّكَ : بیشک تم عَلَي : پر الْحَقِّ الْمُبِيْنِ : واضح حق
پس اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک واضح حق پر تمہی ہو
(آیت 81-79) آنحضرت کے لئے تسلی یہ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی چالوں اور مخالفتوں سے بالکل بےپروا ہو کر اپنے رب کی نصرت پر بھروسہ رکھو، واضح حق پر تمہی ہو۔ اس حق کا بول بالا ہو کر رہے گا اور تمہارے یہ مخالفین، خواہ قریش ہوں یا یہود، اپنے باطل کے ذریعہ سے تمہارا مقابلہ کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ساری چالیں بیکار کر دے گا۔ اللہ کا کلمہ بلند ہو کر رہے گا۔ انک لاتسمع الموتی الآیۃ یعنی اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں سنتے تو تم ان کے حال پر غم نہ کرو، تمہارا کام مردوں کو سنانا نہیں ہے اور نہ بہروں کو سنانا ہے بالخصوص جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں۔ اذا ولوا مدبرین کی قید سے یہاں یہ بات نکلی کہ بہرے بھی اگر کان لگائیں اور دھیان کریں تو کچھ سن سکتے ہیں لیکن یہ تو وہ بہیر ہیں جو بہرے بھی ہیں اور پیٹھ پھیر کر بھگاے بھی جا رہے ہیں تو ایسے بدقسمتوں کو کوئی بات کس طرح سنائی جاسکتی ہے ! وما انت بھدی العمی عن ضللتھم یہاں عن اس بات کا قرینہ ہے کہ لفظ مادی کسی ایسے مفہمو پر متضمن مانا جائے جو عن کے ساتھمناسبت رکھتا ہو۔ یہ حرف چونکہ کسی شے سیہٹانے اور پھیرن یکے مفہوم پر بھی دلیل ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر ہدایت دینے والے نہیں بن سکتے۔ ان تسمع الا من یومن باتینا فیھم ملمون یعنی تمہاری اس دعوت کا فیض پہنچ سکتا ہے تو انہیں لوگوں کو پہنچ سکتا ہے جو ہماری آیات پر ایمان لانا چاہیں۔ یومن باتینا میں فعل ہمارے نزدیک ارادہ فعل کے معنی میں ہے جس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں پایا جاتا وہ اس نعمت کی کیا قدر کریں گے ! فھم مسلمون یعنی جن کے اندر سننے سمجھنے کا ارادہ پایا جاتا ہے وہ بیشک ایمان لائیں گے اور اپنے رب کے فرمانبردار بنیں گے۔ ہدایت کے باب میں سنت الٰہی یہ حققتا یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ ودیعت فرمایا ہے اور سنت الٰہی یہ ہے کہ جو لوگ اس داعیہ کی قدر کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ ہدایت کی مزید راہیں کھولتا ہے اور اگر کوئی اس داعیہ کی قدر نہیں کرتا تو صرف یہی نہیں ہوتا کہ اس کے لئے مزید ہدایت کے دروازے نہیں کھلتے بلکہ اس کا یہ فطری داعیہ بھی مردہ ہوجاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سیدنا مسیح نے یوں واضح فرمایا ہے کہ اس سے وہ بھی لے لیا جاتا ہے جو اس کو دیا گیا۔“
Top