Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے ان کے لئے کلام کے تسلسل کو قائم رکھا تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں
قرآن کی اہل کتاب کے لئے جانی پہچانی ہوئی چیز ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت ہی کی خاطر یہ اہتمام فرمایا کہ اپنی تعلیم و تذکیر کے سلسلہ کو کبھی منقطع نہیں ہنے دیا بلکہ اس کے تسلسل کو برابر قائم رکھا۔ حضرت موسیٰ کو جو کتاب عطا ہوئی جب اس کے حاملوں نے اس کو فراموش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے بنی امی ﷺ کو اس نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اوپر آیات 46-45 میں جو مضمون گزر چکا ہے ایک نئے اسلوب سے یہ اسی کا اعادہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن کوئی انوکھی اور متوحش ہونے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک جانی پہچانی ہوئی چیز ہے اس وجہ سے سب سے پہلے تو اہل کتاب کا فرض ہے کہ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیں اس لئے کو جو نعمت ان کو پہلے نا تمام شکل میں ملی تھی اب وہ اپنی کامل شکل میں ان کو دی جا رہی ہے پھر بنی اسماعیل کی سعادت بھی اسی میں ہے کہ اس کو سینہ سے لگائیں اس لئے کہ اب اللہ تعالیٰ نے ان کو براہ راست اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ اب تک ان کے اندر نہ کوئی رسول آیا تھا نہ ان کے لئے کوئی کتاب نازل ہوئی تھی۔
Top