Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تمہارا کفر میں پڑنا کس طرح جائز ہے جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے اندر اس کا رسول موجود ہے اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا تو وہی ہے جس کو صراط مستقیم کی ہدایت ملی۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کی تدبیریں : اعتصام کے معنی کسی شے کو مضبوطی سے پکڑنے اور تھامنے کے ہیں۔ اعتصام باللہ کے معنی اللہ کے احکام و ہدایات اور اس کی کتاب پر مضبوطی سے نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں مخالفت و موافقت سے بےنیاز ہو کر قائم رہنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو کفر و ارتداد ہر حالت میں انسان کی بدبختی اور اس کی شامت کی دلیل ہے لیکن آج تم نے اگر یہ راہ اختیار کی جب کہ اللہ کی آیات تمہیں سنائی جا رہی ہیں اور خدا رسول تمہارے اندر موجود ہے تو یہ محرومی و بدبختی کی انتہا ہوگی۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی اور اپنے لیے عذر کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھر اس قسم کی ٹھوکر سے بچنے کی تدبیر بتا دی کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہارے قدم جادہ مستقیم پر استوار رہیں اور تمہارے مخالفین تمہیں ٹھوکر نہ کھلا سکیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو مضبوط پکڑو، یعنی اللہ کی جو آیات و ہدایات تمہیں سنائی جا رہی ہیں۔ انہیں حرز جان بناؤ اور تمام مخالفتوں اور تمام خاکبازیوں کے علی الرغم ان پر قائم و دائم رہو۔
Top