Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لوگے تو یہ تم کو تمہارے ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف پلٹا دیں گے۔
مسلمانوں کو اہل کتاب کے اشرار سے بچتے رہنے کی تاکید : فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ سے اہل کتاب کا وہی گروہ مراد ہے جس کی مخالفتوں اور وسوسہ اندازیوں کا اوپر تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ اہل کتاب میں ایک گروہ، جیسا کہ اوپر بھی ذکر گزر چکا ہے اور آگے بھی آ رہا ہے، اہل انصاف کا بھی تھا، اس وجہ سے قرآن نے جگہ جگہ اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے۔ چناچہ یہاں بھی مسلمانوں کو اہل کتاب کی وسوسہ اندازیوں اور خاکبازیوں سے بچتے رہنے کی جو تاکید فرمائی ہے تو تعین کے ساتھ اس گروہ کی طرف انگلی اٹھا دی ہے جس سے بچانا پیش نظر ہے۔ یہ انصاف کا بھی تقاضا تھا اور دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے بھی یہی بات مطابق حکمت ومصلحت تھی۔ اس آیت میں تنبیہ کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ ہیں تو اہل کتاب میں سے، اس وجہ سے ایک نیک نیت آدمی کو یہ حسن ظن ہوسکتا ہے کہ بھلا یہ دیندار لوگ کوئی گمراہی کی بات کس طرح سوچ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلام کے ایسے پکے دشمن ہیں کہ جو مسلمان ان کی باتوں میں آجائے گا۔ یہ اس کو پھر کافر بنا کے چھوڑیں گے۔
Top