Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
خلافت کے قیام کا بنیادی مقصد : یہ امت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکیے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ و استعمال ہوئے ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے۔ بلکہ اختیار اور قوت سے اس کو نافذ کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار و اختیار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مد نظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ کے الفاظ کافی تھے يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ (الایہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس امت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چناچہ اسی حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علی منہاج النبوت کا قیام تھا اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اس امر کی نگرانی کرے کہ مسلمان اعتصام باللہ کے نصب العین سے ہٹنے نہ پائیں۔ اس کے لیے جو طریقے اس کو اختیار کرنے تھے وہ اصولی طور پر تین تھے۔ دعوت الی الخیر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، انہی تین سے خلافت راشدہ کے دور میں وہ تمام شعبے وجود میں آئے جو ملت کی تمام داخلی و خارجی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کا تعلق صرف اس مخصوص گروہ ہی سے نہیں ہے بلکہ یہ اشارہ پوری امت کی طرف ہے کہ جو امت اعتصام باللہ کے لیے یہ اہتمام کرے گی وہی دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کرنے والی بنے گی۔
Top