Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
اِنَّآ اَحْلَلْنَا
: ہم نے حلال کیں
لَكَ
: تمہارے لیے
اَزْوَاجَكَ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْٓ
: وہ جو کہ
اٰتَيْتَ
: تم نے دے دیا
اُجُوْرَهُنَّ
: ان کا مہر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوا
يَمِيْنُكَ
: تمہارا دایاں ہاتھ
مِمَّآ
: ان سے جو
اَفَآءَ اللّٰهُ
: اللہ نے ہاتھ لگا دیں
عَلَيْكَ
: تمہارے
وَبَنٰتِ عَمِّكَ
: اور تمہارے چچا کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ
: اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ خَالِكَ
: اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ
: اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں
الّٰتِيْ
: وہ جنہوں نے
هَاجَرْنَ
: انہوں نے ہجرت کی
مَعَكَ ۡ
: تمہارے ساتھ
وَامْرَاَةً
: اور مومن
مُّؤْمِنَةً
: عورت
اِنْ
: اگر
وَّهَبَتْ
: وہ بخش دے (نذر کردے
نَفْسَهَا
: اپنے آپ کو
لِلنَّبِيِّ
: نبی کے لیے
اِنْ
: اگر
اَرَادَ النَّبِيُّ
: چاہے نبی
اَنْ
: کہ
يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ
: اسے نکاح میں لے لے
خَالِصَةً
: خاص
لَّكَ
: تمہارے لیے
مِنْ دُوْنِ
: علاوہ
الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ
: مومنوں
قَدْ عَلِمْنَا
: البتہ ہمیں معلوم ہے
مَا فَرَضْنَا
: جو ہم نے فرض کیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فِيْٓ
: میں
اَزْوَاجِهِمْ
: ان کی عورتیں
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ
: مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں)
لِكَيْلَا يَكُوْنَ
: تاکہ نہ رہے
عَلَيْكَ
: تم پر
حَرَجٌ ۭ
: کوئی تنگی
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
اے نبی، ہم نے تمہاری ان بیویوں کو تمہارے لئے جائز کیا جن کے مہر تم دے چکے ہو اور تمہاری ان مملوکات کو بھی تمہارے لئے حلال کیا جو اللہ نے تم کو بطور غنیمت عطا فرمائیں اور تمہارے چچا کی بیٹیوں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیوں اور تمہارے ماموں کی بیٹیوں اور تمہاری خالائوں کی بیٹیوں میں سے بھی ان کو حلال ٹھہرایا جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومنہ کو بھی جو اپنے تئیں نبی کو ہبہ کردے بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ یہ خاص تمہارے لئے ہیں، مسلمانوں سے الگ۔ ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کچھ ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں فرض کیا ہے تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔
یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک التہ اتیت اجورھن وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک و بنت عمک عمتک وبنت خالک وبنت خلتک التی ھاجرون معک وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی ان یستنکمھا خالصہ لک مندون المومنین قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وما ملکت ایمانھم نکیلا یکون علیک حرج وکان اللہ غفورا رحیما (50) ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ جس وقت تحدید ازواج کا حکم نازل ہوا ہے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے نکاح میں چار ہی بیویاں… حضرت عائشہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ … تھیں۔ اس وجہ سے نہ حضور کے لئے کسی بیوی کو طلاق دینے کا سوال پیدا ہوتا تھا اور نہ اس باب میں منافقین یا معترضین کے لئے کسی نکتہ چینی کی گنجائش تھی۔ لیکن 5 ھ میں حضور ﷺ نے جب حضرت زینب بن حجش ؓ سے نکاح کیا تب معلوم ہوتا ہے کہ منافقین نے جس طرح یہ فتنہ اٹھایا کہ آپ نے اپنے متنبی کی منکوحہ سے نکاح کرلیا اسی طرح یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ آپ نے اپنے لئے الگ شریعت بنا رکھی ہے، دوسرے مسلمانوں کو تو بیویوں کے معاملے میں چار تک کی قید سے پابند کردیا گیا ہے لیکن آپ نے اپنے آپ کو اس پابندی سے بالا رکھا۔ حضرت زینب ؓ کے واقعہ کی تفصیلات اوپر گزر چکی ہیں جس سے آپ کو یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ نے یہ نکاح اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا۔ لیکن معترضین اس بات کو کب ماننے والے تھے اس وجہ سے انہوں نے اعتراض اٹھایا ہوگا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پوری تفصیل کے ساتھ بتایا کہ نکاح کے معاملے میں نبی ﷺ کو دوسرے مسلمانوں کے مقابل میں کیا امتیازات حاصل ہیں۔ یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک التی اتیت اجورھن۔ سب سے پہلے ان ازواج کے متعلق جو آیت کے نزول کے وقت آپ کے نکاح میں تھیں۔ فرمایا کہ ہم نے تمہاری ان بیویوں کو جن کے مہر تم ادا کرچکے ہو، تمہارے لئے جائز ٹھہرایا۔ ’ جائز ٹھہرایا ‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی پہلو سے ان کو حرمت لاحق ہوگئی تھی، وہ دور کردی گئی بلکہ یہ بات منافقین و معترضین کا منہ بند کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے کہ وہ جو ژاژخائی چاہیں کرتے رہیں تم ان کی پروا نہ کرو۔ قرائن دلیل ہیں کہ یہ آیت 5 ھ میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی سے لے کر 5 ھ تک جو سیدات ؓ حضور ﷺ کے عقدنکاح میں آئیں ان میں سے حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کا تو جیسا کہ اوپر اشارہ گزرا، انتقال ہوچکا تھا البتہ حضرت عائشہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ حیات تھیں۔ اور ان میں نیا اضافہ حضرت زینب بن حجش ؓ کا ہوا تھا۔ گویا ان سب کے باب میں ارشاد ہوا کہ اللہ نے ان کو تمہارے لئے جائز کیا۔ اتیت اجورھن کے الفاط سے ان کا تعارف اس لئے فرمایا ہے کہ اس کے بعد ان خواتین کا ذکر آرہا ہے جو طریق فے آپ کو حاصل ہوں۔ ان الفاظ نے آپ کی ان ازواج مطہرات ؓ کو ان سے فی الجملہ ممتاز کردیا اس لئے کہ مملوکات کے معاملے میں مہر کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک، یعنی غنیمت کی راہ سے آپ کو جو ملک یمین حاصل ہوں ان کو بھی اللہ نے آپ ﷺ کے لئے جائز کیا۔ یہاں وما ملکت یمینک کے بعد مما اناء اللہ علیک کے الفاظ خاص طور پر نگاہ میں رکھنے کے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے یہاں عام لونڈیاں مراد نہیں ہیں بلکہ جنگ و جہاد میں جو عورتیں قید ہو کر آئیں وہ مراد ہیں ان اسیرات میں بسا اوقات شریف خاندانوں اور سرداروں کی بہوئیں اور بیٹیاں بھی ہوتی ھیں۔ ان کے ساتھ فی الجملہ امتیازی سلوک کی روایت زمانہ جاہلیت میں بھی تھی اور اسلام نے بھی اس کو باقی رکھا چناچہ اس طرح کی عورتیں تقسیم کے وقت عموماً سرداروں ہی کو دی جاتی تھیں۔ حضرت جویریہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ اسی طریقہ سے علی الترتیب غزوہ بنی مصطلق اور غزہ خیبر کے موقع پر حضور ﷺ کے حصہ میں آئیں۔ آپ ﷺ ان کو لونڈیوں کی حیثیت سے بھی رکھ سکتے تھے لیکن آپ نے ان کی خاندانی وجاہت کا لحاظ فرمایا اور آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا۔ یہ نکاح آپ ﷺ نے اسی اجازتِ خاص کے تحت کیے جو اس آیت میں آپ کو دی گئی۔ اگر یہ اجازت آپ کو حاصل نہ ہوتی تو آپ ان دونوں سیدات کو لونڈیوں کی حیثیت سے تو رکھ سکتے تھے لیکن بیویوں کی حیثیت سے نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے کہ اس صورت میں ازواج کی تعداد اسلام کے عام ضابطہ سے متجاوز ہوجاتی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قسم کی تنگی ہوتی جو آپ کے منصب کے اعتبار سے بعض اخلاقی وسیاسی مصالح میں مخل ہوتی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی۔ یہ دونوں نکاح بالترتیب 5 ھ اور 7 ھ میں ہوئے۔ اس طرح 7 ھ تک آپ کی ازواج کی تعداد سات ہوگئی۔ وبنت عمک وبنت عمتکک وبنت خالک وبنت خلتک التہ ھاجرن معک۔ یہ حضور ﷺ کے نہایت قریبی رشتہ کی خواتین کی تفصیل ہے کہ تمہارے چچا اور پھوپھیوں، ماموئوں اور خالائوں کی بیٹیوں میں سے اگر کسی نے دین کی خاطر اپنے خویش و اقارب اور خاندان و قبیلہ کو چھوڑا اور تمہارے ساتھ ہجرت کی ہو اور تم اس قربانی کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کے طور پر ان میں سے کسی کو اپنے عقد نکاح میں لینا چاہ تو لے سکتے ہو۔ حضرت زینب ؓ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو نکاح کا حکم دیا اس میں جہاں جاہلیت کی ایک رسم بد کی اصلاح مدنظر تھی وہیں یہ بات بھی مدنظر تھی کہ وہ آپ کی پھوپھی کی لڑکی اور دین کی راہ میں اپنی قربانیوں کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی دلداری کی مستحق تھیں۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان ؓ کے ساتھ بھی آپ نے اسی اجازت کے تحت نکاح کیا۔ وہ آپ ﷺ کے رشتہ کے چچا کی صاجزادی تھیں اور دین کی راہ میں ان کی قربانیوں اور جانبازیوں کا جو حال تھا اس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ ننھیالی رشتوں میں اگرچہ حضور ﷺ کا کوئی نکاح ثابت نہیں لیکن ان کے اند ربھی اگر حضرت زینب ؓ اور اور حضرت ام حبیبہ ؓ جیس کوئی مثال موجود ہوتی تو اس آیت کے تحت آپ اس رشتہ کے اندر بھی نکاح کرسکتے تھے۔ وامرۃ قومنۃ ان فھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی ان یستنکھھا۔ کسی خاتون کا اپنے آپ کو کسی کے لئے ہبہ کردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہر حق سے دست بردار ہو کر اپنے تئیں اس کے حوالے کردے اور حقوق زوجیت میں سے جو کچھ بخش دے وہ اس پر قانع و راضی رہے۔ یہ ایک انتہائی ایثار نفس کی صورت ہے جس کا جذبہ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ سے محض شرفِ نسبت حاصل کرنے کے لئے متعدد صحابیات ؓ کے اندر موجود تھا اور انہوں نے حضور ﷺ سے اس کا اظہار بھی کیا۔ حضور ﷺ کی گھریلو زندگی ہر شخص کو معلوم ہے کہ فقرو فاقہ کی زندگی تھی۔ اوپر آپ پڑھ آئیے ہیں کہ امہات المومنین ؓ کی غریبانہ زندگی ہی کی بنا پر منافقات ان کے اندر وسوسہ اندازی کرتی رہتی ہیں کہ اگر وہ طلاق حاصل کرلیں تو وقت کے بڑے برے سردار ان کا نکاح کے پیغام دیں گے اور ان کی یہ فقر و فاقہ کی زندگی عیش و عشرت کی زندگی سے بدل جائے گی۔ اس طرح کی غریبانہ زندگی کے لئے ظاہر ہے کہ کوئی عورت دنیا کی کوئی طمع پیش ِ نظر رکھ کر یہ بازی نہیں کھیل سکتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہبہ کردے ! یہ قربانی تو ہی خواتین کرسکتی تھیں جن کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کے لئے عقیدت و فدیت کا ایسا جذبہ ہو کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کا ہر ارمان قربان کردینے کے لئے تیار ہوں۔ یہ جذبہ ایک نہایت پاکیزہ۔۔۔۔ جذبہ تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا محافظ فرمایا اور حضور ﷺ کو یہ اجازت دی کہ اگر کوئی مومنہ اپنے آپ کو اس طرح ہبہ کردے اور حضور ﷺ کو اپنے عقد نکاح میں لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ ان اراد النبی این یکشقکحھا کی قید سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر چندیہ جذبہ نہایت محمود اور پاکیزہ ہے لیکن اس کی حوصلہ افزائی پیغمبر ﷺ کے لئے زیادہ ممکن نہیں ہے اس وہ سے یہ معاملہ کلیتہً آپ کی صوابدید پر منحصر ہے کسی کی اس طرح کی پیش کش کو آپ قبول کریں یا نہ کریں۔ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ اس طرح کی صرف ایک پیش کش، حضرت میمونہ ؓ کی آپ ﷺ نے قبول فرمائی۔ یہ نکاح عمرۃ القضاء کے موقع پر 7 ھ میں ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کوئی نکاح نہیں کیا۔ ’ خالسۃ لک من دون المومنین۔ یعنی یہ چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت خاص تمہارے لئے ہے، دوسرے مسلمانوں کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے۔ ’ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وما ملکت ایمانھم لکیلا یکون علیک حرج۔ یہ سورة نساء کی آیت 3 کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے۔ فرمایا کہ ہم نے عام مسلمانوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں جو کچھ فرض کیا ہے وہ ہمارے پیش نظر ہے۔ اس کے باوجود ہم تم کو یہ خاص اجازت اس لئے دے رہے ہیں کہ تم پر اس باب میں کوئی تنگی باقی نہ رہے۔ یعنی اللہ نے جن دینی و ملی مصالح کی خاطر یہ اجازت آپ کو عطا فرمائی ہے ان مصالح کو آپ بغیر کسی زحمت کے پورا کرسیں۔ ان مصالح کی طرف ہم اوپر اشارہ کرتے آئے ہیں۔ وکان اللہ غفورا رحیما۔ یہ نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگرچہ اس اجزت نے آپ ﷺ کے اوپر حقوق و فرائض سے متعلق بہت بھاری ذمہ داریاں عائد کردی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے، وہ ان تقصیرات سے درگزر فرماتا ہے جو بلا قصد وار دہ صادر ہوجایا کرتی ہیں۔ اس آیت کے متعلق، بعض روایات کی بنا پر، لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ حضور کے تمام نکاحوں کے بعد نازل ہوئی اور اس کے ذریعہ سے گویا آپ کو ایہ اطمینان دلادیا گیا کہ آپ ﷺ نے جتنے نکاح کیے سب جائز ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے۔ پہلی قابل توجہ بات یہ ہے کہ تحدید ازواج کا صریح حکم نازل ہوجانے کے بعد حضور ﷺ کے لئے یہ ممکن کس طرح تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر آپ کوئی نکاح اس ضابطہ کے خلاف کرتے۔ آپ ﷺ کے شایانِ شان بات تو یہ تھی کہ آپ ﷺ اس حکم پر سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے بنتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اتنی ہی بات کہنی تھی کہ آپ کے سب نکاح جائز ہیں تو یہ رشتوں اور عورتوں کی اقسام کی تفصیل کی کیا ضرورت تھی۔ پھر تو یہ مختصر سا فقرہ بالکل کافی ہوتا کہ اب تک آپ ﷺ نے جتنے نکاح کیے سب اللہ نے جائز کردیے۔ اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ بہرحال یہ رائے نہایت کمزور ہے۔ ہمارے نزدیک اصل صورت واقعہ وہی ہے س کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ جس وقت تحدید ِ ازواج والی آیت ہوئی ہے اس وقت تو آپ ﷺ کے نکاح میں چار ہی بیویاں تھیں، اس وجہ سے کسی کو طلاق دینے کا سوال ہی نہیں پید اہوتا تھا، البتہ بعد میں جب آپ نے جضرت زینب ؓ سے نکاح کیا تو یہ چیز معترضین کے لئے وجہ اعتراض بنی ہوگی اور اس اعتراض سے دوسرے نیک نیت لوگوں کے اندر بھی شبہات پیدا ہونے کا امکان تھا۔ اس امکان کے سدباب کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہایت تفصیل سے واضح فرمادیا کہ حضرت زینب ؓ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے کرایا ہے اور اس معاملے میں پیگمبر ﷺ کے لئے عام مسلمانوں سے الگ ضابطہ ہے۔ وہ فلاں فلاں اقسام کی خواتین سے آئندہ بھی نکاح کرسکتے ہیں۔ اس طرح حضرت زینب ؓ کے نکاح کو بھی جائز فرما دیا اور آئنہد کے لئے ایک ضابطہ بھی مقرر کردیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک یہ آیت 5 ھ میں حضرت زینب ؓ کے نکاح کے بعد نازل ہوئی ہے۔
Top