Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 63
یَسْئَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں النَّاسُ : لوگ عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ ۭ : قیامت قُلْ : فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُدْرِيْكَ : تمہیں خبر لَعَلَّ : شاید السَّاعَةَ : قیامت تَكُوْنُ : ہو قَرِيْبًا : قریب
لوگ تم سے قیامت کے وقت کو پوچھتے ہیں۔ کہہ دو ، اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور تمہیں کیا پتہ، شاید قیامت قریب ہی آلگی ہو۔
13۔ آگے کا مضمون۔ آیات 63۔ 73 آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں جن میں پہلے قیامت کی یاددہانی فرمائی ہے کہ مجرد اس بنا کر کہ اس کا وقت پیغمبر نہیں بتاسکتے یا لوگوں کے مطالبہ پر اس کو دکھا نہیں سکتے اس کو مذاق سجھنا نہایت نا عاقبت اندیشا نہ روش ہے۔ وہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس کے ظہور کا وقت اگرچہ اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن وہ آکے رہے گی اور اس دن کوئی کسی کا حامی و شفیع نہ بن سکے گا بلکہ ہر شخص اپنے اعمال اور اپنی ذمہ داریوں سے متعلق خود مسئول ہوگا۔ اس دن کسی کا یہ عذر نافع نہیں ہوگا کہ اس نے اپنے لیڈروں اور بڑوں کو پیروی کی اور انہوں نے اس کو گمراہ کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں بالخصوص منافقین کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اپنے رسول کے معاملے میں ایذا رسانی کی وہ روش نہ اختیار کرو جو یہود نے حضرت موسیٰ ؑ کو ایذا پہنچانے کے لئے اختیارو کی ورنہ اس کا انجام وہی ہوگا جس سے یہود کو دو چار ہونا پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ہر الزام سے بری کیا اور ان کے مخالفین پر ہمیشہ کے لیے لعنت کردی۔ مسلمانوں کے لئے صحیح روش، جو دنیا و آخرت دونوں کی کامرانیوں کی ضامن ہے، یہ ہے کہ وہ رسول کے ہر حکم پر ’ سمعنا واطعنا ‘ کہیں۔ آخر میں یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے عظیم شرف سے نوازا ہے کہ اس کو اپنی اس زمانت کا امین بنایا ہے جس کا اہل آسمان و زمین میں اس نے صرف اسی کو ٹھہرایا۔ اس امانت کی ذمہ داریاں ادا کرنے ہی پر اس کے تمام شرف کا انحصار ہے۔ اگر اس کا حق ادا کرے تو وہ فرشتوں کا مسجود ہے اور اگر حق نہ پہچانے تو پھر وہ اسفل سافلین کا سزوار ہے۔ اس امانت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایکدن وہ اس کی بابت مسئول ہو وہ اس کی سزا بھگتیں اور جنہوں نے اس کی نہگداشت کی وہ و اس کا صلہ پائیں۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 14۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یسئلک الناس عن الساعۃ قل انما علمھا عند اللہ وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریبا (63) یعنی ان اشرار و مفسدین کو جب قیامت سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ہم نہ جانے کب سے اس کا ڈراوا سن رہے ہیں لیکن نہ وہ آئی، نہ کبھی آئے گی۔ اگر اس کو آنا ہو تو آخر وہ آ کیوں نہیں جاتی ؟ اس کے آنے کا وقت کب آئے گا ! مطلب یہ ہے کہ ہی محض ایک دھونس ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ہم اس دھونس میں آنے والے نہیں ہیں۔ ’ قل انما علمھا عند اللہ ‘۔ فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ جہاں تک اس کے آنے کے وقت کا تعلق ہے اس کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے۔ کائنات کے اس بھید کو صرف خدا ہی جانتا ہے۔ نہ اس کو میں جانتا ہوں اور نہ کسی اور کو اس کا علم ہے۔ البتہ اس کا آنا یقینی ہے۔ جس سے میں تمہیں آگاہ کررہا ہوں۔ اگر میں اس کا وقت نہیں بتاسکتا تو اس سے اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے مقام میں اس بات کی وضاحت اس طرح فرمادی کہ کسی چیز کے ظہور کا وقت نہ معلوم ہونے سے نفس اس شے کا انکار ایک احمقاننہ منطق ہے۔ قیامت تو درکنار ہماری روزمرہ کی زندگی کی کتنی عامتہ الورود حقیقتیں ہیں جن کا وقت اگرچہ معلوم نہیں ہوتا لیکن کوئی عقال ان کا انکار نہیں کرتا۔ انسان کے علم کی رسائی بہت محدود ہے۔ وہ ہر چیز کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ آفاق وانفس اور عقل و فطرت کے اندر قیامت کی شہادت موجود ہے تو مجرد اس بنا پر اس کا مذاق اڑانا کہ اس کا وقت نہیں بتایا جاسکتا، مھض ابلہی و خود فریبی ہے۔ ’ وما یدرک لعل الساعۃ تکون قریبا ‘۔ یہ اسلوبِ کلام کسی شے کی عظمت، اہمیت اور اس کی ہولناکی کو ظاہر کرتا ہے۔ مخالفین کے سوال میں جو طنز و استہزاء مضمر ہے یہ اس کا جواب ہے کہ مجرد اس بنا پر کہ تم قیامت کا وقت نہی بتا سکتے لوگ تمہارا مذاق اڑا رہے ہیں، تمہیں کیا خبر، شاید وہ قریب ہی آلگی ہو… اس فقرے میں بھی یہ اشار فرمادیا گیا کہ اب اس کے ظہور میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ یہ پیغمبر ﷺ کے لء تسلی اور قیامت کا مذاق اڑانے والوں کے لئے نہایت سخت انذارد تنبیہ ہے۔ یہ امیر یہاں ملحوظ رہے کہ نبی ﷺ چونکہ آکری نبی ہیں اس وجہ سے آپ کی بعثت کے بعد دنیا کی عدالت کے لئے آخری مرحلہ اب قیامت ہی کا باقی رہ گیا۔ اس پر مفصل بحث اس کے محل میں انشاء اللہ آئے گی۔
Top