Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
کہہ دو کہ اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو تم اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے ان کے لئے آخرت میں نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، ان کو ان کا صلہ بےحساب پورا کیا جائے گا
(آیت) مظلوم مسلمانوں کے لئے پیام تسلی قریش کے رویہ سے مایوسی کے اظہار کے بعد یہ ان غریب مسلمانوں کو تسلی دی جو قریش کے ہاتھوں ستائے جا رہے تھے۔ پیغمبر ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ میرے ان بندوں کو یہ بات پہنچا دو کہ تم اپنے رب سے ڈرتے رہ۔ یعنی بیوقوف لوگوں نے تو شرک و شفاعت کی راہیں نکال کر خدا کے عدل اور اس کی جزاء و سزا کو بالکل بےمعنی کردیا ہے لیکن تم اپنے رب کے عدل سے برابر ڈرتے رہو۔ ان لوگوں کے لئے خدا کے ہاں اچھا صلہ ہے جو اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی زندگی بسر کریں گے۔ رہے وہ لوگ جو جھوٹی شفاعتوں کے بل پر جنت الحمقاء میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی اس حماقت کا انجام دیکھ لیں گے۔ وارض اللہ واسعۃ یعنی اس راہ میں جو مصائب وشدائد تمہارے دشمنوں کی طرف سے پیش آ رہے ہیں یا آئندہ آئیں ان کو عزم و ہمت کے ساتھ بردشات کرو۔ اگر دیکھو کہ تمہارے وطن کی زمین تمہارے اوپر تنگ کردی گئی ہے جب بھی بددل و مایوس نہ ہونا، خدا کی زمین بڑی وسیع ہے۔ اگر شہر میں تمہارے لئے اللہ کے دین پر قائم رہنا ناممکن بنا دیا گیا تو اللہ تمہاری رہنمائی کسی اور سر زمین کی طرف فرمائے گا جہاں تم بےخوف و خطر اپنے رب کی عبادت کرسکو گے۔ اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ سورة کشمکش حق و باطل کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب مہ کی سر زمین مسلمانوں پر تنگ ہو رہی تھی اور مسلمان اپنے مستقبل کے مسئلہ پر سوچنے لگ گئے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اطمینان دلایا کہ اگر اس شہر کے بشندوں نے تمہیں نکالا تو اطمینان رکھو کہ کوئی اور سر زمین تمہارا خیر مقدم کرے گی۔ بعینہ یہی مضمون، اسی سیاق و سبقا کے ساتھ، سورة عنکبوت میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے۔ یعبادی الذین امنوآ ان ارضی واسعۃ فایای فاعبدون (العنکبوت 561) انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو، میری زمین بڑی کشادہ ہے تو میری ہی بندگی پر جمے رہو۔ یعنی یہ راہ ہے تو بڑی سخت آزمائشوں کی لیکن اطمینان رکھو کہ میرے جو بندے ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں گے ان کو اس کا صلہ بھی ان کی توقعات اور ان کے اندازوں اور قیاسوں سے کہیں ڑھ چڑھ کر ملے گا۔ آج وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
Top