Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 33
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہو یہ بات اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ : کہ ہوجائیں گے لوگ اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک ہی امت لَّجَعَلْنَا : البتہ ہم کردیں لِمَنْ : واسطے اس کے جو يَّكْفُرُ : کفر کرتا ہے بِالرَّحْمٰنِ : رحمن کے ساتھ لِبُيُوْتِهِمْ : ان کے گھروں کے لیے سُقُفًا : چھتیں مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی سے وَّمَعَارِجَ : اور سیڑھیاں عَلَيْهَا : ان پر يَظْهَرُوْنَ : وہ چڑھتے ہوں
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو جو لوگ خدائے رحمان کے منکر ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کردیتے اور زینے بھی چاندی کے جن پر وہ چڑھتے
ولولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ لجعلنا لمن یکفربالرحمٰن لبیوتھم سقفاً من فضۃ ومعارج علیھا یظھرون، ولبیوتھم ابواباً و سوراً علیھا یتکون (34-33) حذف کا ایک اسلوب یہاں من فضۃ کے الفاظ جس طرح سقفاً کے بعد آئے ہیں اسی طرح معارج ابواب اور سر کے بعد بھی آنے چاہئیں لیکن فصیح عربی کے معروف اسلوب کے مطابق وہ حذف کردیئے گئے اس لئے کہ قرینہ خود ان کو واضح کر رہا ہے۔ متاع دنیا کی بےحقیقتی اب یہ اس متاع دنیا کی بےحقیقتی واضح فرمائی جا رہی ہے جس کے غرو نے کفار کو اس خبط میں مبتلا کیا کہ وہ سمجھنے لگ گئے کہ جب اس دنیا کی ساری شوکت و عظمت ہم کو حاصل ہوئی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کو کوئی کتاب اتارنی ہوتی تو اس کے لئے وہ ہمارے سوا کسی اور کو تلاش کرتا ! فرمایا کہ دنیا کے جس سرورسامان پر ان کو یہ ناز ہے اس کی حقیقت خدا کی نگاہوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر یہبات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان پر چھڑنے کے زینے اور ان کے کواڑ اور ان کے ٹیکے لگانے کے تخت سب چاندی کے کردیتا لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ آزمائش لوگوں کے لئے بہت سخت ہوجاتی۔ عام لوگ جب دیکھتے کہ خدا کے کفر کنے والوں کو یہ کچھ حاصل ہے تو لوگ اندھے ہو کر کفر ہی کی راہ اختیار کرلیتے۔ کوئی بڑا ہی نصیبہ ور ہوتا ہوتا تو وہ اپنے ایمان کو اس فتنہ سے بچا پاتا۔ خلق کو اس آزمائش سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں سے اہل ایمان اور اہل کفر دونوں ہی کو حصہ دیا ہے البتہ آخرت میں اہل کفر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ بات جو فرمائی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑتے، ایک کلیہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ عمومیت و اکثریت کے اعتبار سے فرمائی گی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر دنیا صرف کافروں ہی کو ملت تو اس دنیا میں بہت تھوڑے لوگ نکلتے جو ایمان کی راہ اختایر کرتے تاہم نکلتے ضرور، خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہوتی۔ انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ نے ایس بنائی ہے کہ شدید سے شدید امتحان میں بھی ان کے اندر سے ایسے جوہر قابل نکل آتے ہیں جو آگ کے سمندر سے گزر جاتے ہیں لیکن اپنے رب کو نہیں چھوڑتے۔
Top