Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 39
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کی افروزنی ہو اور آسمانوں اور زمین کی تمام فوجیں اللہ ہی کی ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
وللہ جند السموت والارض ط وکان اللہ علیماً حکیما 4 وعدہ نصرت کی دلیل اوپر والی آیت میں جس نصرت کا وعدہ فرمایا گیا ہے یہ اس کی دلیل ارشاد ہوئی ہے کہ یہ اللہ ہی کی نصرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے مومنوں کے دلوں میں یہ حوصلہ پیدا کیا کہ وہ تمہاری دعوت پر عمرہ کے لئے تمہارے ہم رکاب ہوگئے تاکہ جو دولت ایمان ان کو حاصل تھی اس پر وہ اپنی اس حوصلہ مندی اور بنی کی رفاقت سے مزید اضاصہ کرلیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ سفر اگرچہ عمر کے لئے تھا لیکن اس کا ارادہ نبی ﷺ نے نہایت خطرناک حالات میں فرمایا تھا۔ قریش سے بزابر جنگ کی حالت قائم تھی اور اب تک ان کے حوصلہ کا یہ عالم تھا کہ وہ برابر امنڈا منڈ کر مدینہ پر حملے کر رہے تھے ایسی حالت میں کسی طرح بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ مسلمان جماعتی حیثیت سے عمرہ کے لئے جائیں گے تو وہ بغیر مزاحمت کے آسانی سے ان کو مکہ میں داخل ہونے دیں گے۔ چناچہ آگے کی آیات سے واضح ہوجائے گا کہ منافقین اسی بنا پر یہ گمان رکھتے تھے کہ مسلمان موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور اب کے اس سفر سے ان کو گھر پلٹنا نصیب نہیں ہوگا۔ ایسے حالات کے اندر چودہ پندرہ سو صحابہ کا اپنے گھروں کو چھوڑ کر ڈھائی سو میل دور کے سفر کے لئے اٹھ کھڑے ہونا اور وہ بھی بالکل غیر مسلح کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان میں برکت دی، ان پر خاص اپنے پاس سے عزم و حوصلہ اتارا اور وہ اس سفر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا نے تمہارے ساتھیوں کو اس موقع پر یہ حوصلہ عطا فرمایا وہ آگے کے مراحل میں بھی ان کی حوصلہ افزائی فرمائے گا اور اللہ تم سے جس نصر عزیز کا وعدہ فرما رہا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اہل ایمان کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں دھا کے ایمان کی جانچ کے لئے پیش آتی ہیں لیزدا دوآ ایماناً مع ایمانھم میں دین کی اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس دنیا میں اہل ایمان کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں وہ درحقیقت ان کے ایمان کی جانچ کے لئے پیش آتی ہیں۔ اگر وہ اس جانچ میں پورے اترتے جاتے ہیں تو ان کے ایمان کی قوت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو نفس مطمئنہ، کی بادشاہی حاصل ہوجاتی ہے اور اگر وہ فیل ہوجاتے ہیں اور برابر فیل ہی ہوتے رہتے ہیں تو بالاخر ان کا نور ایمان بالکل ہی بجھ جاتا ہے۔ ایمان کے گھٹنے بڑھنے سے متعلق امام ابوحنیفہ ؒ کے ملک کا صحیح پہلو ان کا نور ایمان بالکل ہی بجھ جاتا ہے۔ اس سنت الٰہی کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں اور اس سنت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ ایمان ایک گھٹنے بڑھنے والی چیز ہے۔ اگر وہ کوئی جامد شے ہوتا تو اس امتحان کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہ سے یہ بات جو منسوب کی جاتی ہے کہ وہ ایمان کے گھٹنے بڑھنے کے قائل نہیں تھے تو اس کا ایک خاص محل ہے۔ اس سے ان کی مراد وہ قانونی ایمان ہے جس پر ایک اسلامی ریاست میں ایک مسلمان کے شہری حقوق قائم ہوتے ہیں، نہ کہ وہ ایمان جس پر آخرت کے مدارج و مقامات مبنی ہیں، قانونی و فقہی ایمان کے اعتبار سے ہر مسلمان جو ضروریات دین کا قائل ہ، برابر ہے اور اسلامی ریاست سب کے ساتھ مسلمان ہی کی حیثیت سے معاملہ کرے گی۔ اس پہلو سے ایک بدوی اور ایک شہری میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ رہا آخرت کا معاملہ تو اس کا انحصار حقیقی ایمان پر ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اور وہی اس کا فیصلہ فرمائے گا۔ امام صاحب ؒ کا یہ مسلک بجائے خود ہمارے نزدیک بالکل صحیح ہے لیکن اس کی وکالت بھی بالکل غلط طریقہ پر کی جاتی ہے اور اعتراض کرنے والوں نے ان کی بات سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ جو رسول کی مدد کرتے ہیں اپنے لئے کسب سعادت کی راہ کھولتے ہیں وللہ جنود السموت والارض ط وکان اللہ علیماً حکیماً یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تمہاری رفاقت کے لئے جو آمادہ کردیا تو یہ ان پر اس نے احسان فرمایا کہ وہ اپنی اس نیکی سے اپنے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ کرلیں ورنہ وہ اپنے رسول اور اپنے دین کی نصرت کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام قوتیں اور تمام فوجیں اللہ ہی کے تصرف میں ہیں وہ جب چاہے کفار سے اپنی ان فوجوں کے ذریعہ انتقام لے سکتا ہے لیکن اس نے اہل ایمان کو اپن رسول کی نصرت کی دعوت دے کر یہ چاہا کہ ان کے لئے ایک فوز عظیم کے حصول کی راہ کھولے۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے اس کام میں بھی اس کی عظیم حکمت ہے۔ اس مضمون کو مزید وضاحت مطلوب ہو تو سورة محمد کی آیت 4 کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ آگ یہی آیت ایک اور پہلو سے آرہی ہے۔ وہاں اس کی مزیدوضاحت ہوجائے گی۔
Top