Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
کیا تمہیں ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی !
07 آگے آیات 24۔ 46 کا مضمون آگے قرآن نے انہی دعاوی کے حق میں، جو اوپر مذکور ہوئے، تاریخ کی شہادت پیش کی ہے اور قرآن کا یہ عام اصول ہے کہ وہ عقلی وانفسی دلائل کے پہلو بہ پہلو تاریخی شواہد بھی پیش کرتا ہے تاکہ مخاطب کے سامنے بات اچھی طرح برہن بھی ہوجائے اور اگر دلوں کے اندر اثر پذیری کی کچھ رمق ہو تو ان سے لوگ عبرت بھی حاصل کریں۔ ان واقعات پر غور کیجئے گا تو معلوم ہوگا کہ ان میں تین پہلو ملحوظ ہیں۔ ایک یہ کہ جن قوموں کی ہلاکت بیان ہوئی ہے ان کی تباہی میں ابروہوا کے تصرفات کو خاص دخل رہا ہے۔ اس پہلو سے یہ واقعات گویا ان قسموں کی تصدیق ہیں جواوپردکھائی گئی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں جزا کے دونوں پہلو نمایاں ہوئے ہیں، رحمت بھی اور نعمت بھی۔ ایک ہی چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک قوم کے لئے عذاب بن گئی اور دوسری قوم کے لئے ذریعہ نجات۔ تیسرا یہ کہ اللہ کی گرفت بالکل بےپناہ ہے۔ کوئی قوم کتنی ہی زور آور ہو لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کو فنا کرنا چاہتا ہے تو چشم زدن میں فنا کردیتا ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 8۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت ھل اتک حدیث ضیعف ابراھیم المکرمین (24) تاریخی سرگزشتوں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نعمت کی شہادت اوپر آیت وفی السماء رزقکم وماتوعدون، کے تحت ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں رحمت اور نعمت دونوں ہی ہے۔. وہ ایک ہی چیز کو جس کے لئے چاہے رحمت بنادے اور اسی چیز کو جس کے لئے چاہے عذاب بنادے۔ آسمان سے بارش ہوتی ہے جو اہل زمین کے لئے ایک عظیم رحمت ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اس کو عذاب بھی بنا دیتا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے آگے کی تاریخی سرگزشتوں کی تمہید حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لوط ؑ کے واقعہ سے اٹھائی ہے جس میں قوم لوط کے انجام سے پہلے یہ دکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو فرشتے قوم لوط کے لئے قہرالٰہی لے کر آئے وہی فرشتے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس ایک ذی علم فرزند کی بشارت لے کر پہنچے۔ ھل اتاک کا خطاب ضروری نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے ہو بلکہ اقرب یہ ہے کہ یہ خطاب انہی مکذبین سے ہے جن پر اس سورة میں حجت تمام کی جارہی ہے۔ جماعت کو جب واحد کے صیغہ سے خطاب ہوتا ہے تو، جیسا کہ ہم جگہ جگہ واضح کرتے آرہے ہیں، مخاطب گروہ کے ایک ایک فرد کو متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ استفہامیہ اسلوب بیان بھی بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ آگے جو بات کہی جارہی ہے وہ اہمیت رکھنے والی ہے، اس کو ہر شخص سنے اور گوش دل سے سنے۔ لفظ صیفً ، واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ یہاں اس کی صفت ”مکرمین“ آئی ہے۔ لفظ مکرمین سے اشارہ اس آئوبھگت، خیرمقدم، تواضع اور ضیافت کی طرف ہے جس کا اہتمام حضرت ابراہیم ؑ نے ان مہمانوں کے لئے فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا یہ اہتمام اس بات کی دلیل ہے کہ ان مہمانوں کی شرافت و وجاہت ان کی شکل و صورت ہی سے ظاہر تھی۔ اس کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ چناچہ حضرت ابراہیم ؑ ان سے ناآشان ہونے کے باوجود ان کی ضیافت کی تیاریوں میں لگ گئے اور انتہائی عجلت میں جو بہتر سے بہتر سامان ضیافت ممکن تھا، وہ انہوں نے کرڈالا۔ لیکن یہی مہمان جب حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے تو ان کی قوم ان مہمانوں کی بےحرمتی کے درپے ہوگئی اور حضرت لوط ؑ کو اپنے مہمانوں کی عزت بچانے کے لئے خود اپنی حرمت دائود پر لگادینی پڑی۔ بالآخر ان مہمانوں کو اپنا اصلی رخ ان ناہنجاروں کے لئے بےنقاب کرنا پڑا اور انہوں نے اس پوری قوم کا بیڑا غرق کردیا۔
Top