Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 48
وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ
وَالْاَرْضَ : اور زمین کو فَرَشْنٰهَا : بچھایا ہم نے اس کو فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ : تو کتنے اچھے بچھانے والے ہیں۔ ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین کو ہم نے بچھایا، پس کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں !
والارض فرشنھا فنعم المھدون (48) آسمان کے بعد زمین کی طرف اشارہ آسمان کے بعد زمین کی طرف توجہ دلائی کہ اس کو دیکھو ہم نے کس خوبی سے بچھایا ہے اور ہم کتنے اچھے بچھانے والے ہیں، یعنی زمین پر غور کروتو اس سے ہماری قوت و عظمت بھی واضح ہوگئی اور ہماری ربوبیت بھی۔ جس سے ہر معقول آدمی اس نتیجہ تک پہنجتا ہے کہ جس خدا نے یہ زمین بنائی ہے اور اس کے اندر انسان کی پرورش کے لئے گونا گوں وسائل پیدا کئے ہیں اس نے یہ کارخانہ عبث نہیں پیدا کیا ہے۔ یہ بات اس کی حکمت و ربوبیت کے منافی ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے۔ حکمت و ربوبیت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں ہر شخص اس دنیا کی زندگی سے متعلق مسئول ہو کہ اس نے اس میں خالق کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی یا اپنی مرضی چلائی، اگر اس نے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی ہو تو وہ حقدار ہے کہ اپنی اس شکر گزاری کا صلہ پانے اور اگر اپنی من مانی کی ہو تو وہ سزا وار ہے کہ اپنی اس سرکشی کی سزا بھگتے۔ یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ مختلف اسلوبوں سے بیان ہوچکا ہے۔ یہاں زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ سورة نبا کی تفسیر میں انشاء اللہ اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ فنعم المھدون، سے مقصود اس دنیا کے ان عجائبات حکمت و ربوبیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا خالق صرف ایک بےپناہ قدرت رکھنے والا ہی نہیں ہے بلکہ جس طرح اس کی قدرت بےپناہ ہے اسی طرح اس کی حکمت، رحمت، پروردگاری اور اس کے جودوکرم کی بھی کوئی حدونہایت نہیں ہے۔ پھر یہیں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کی یہ صفات بھی متقاضی ہیں کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں وہ اپنی بندوں کے درمیان انصاف کرے اور اس کے کامل عدل اور اس کی کامل رحمت کا ظہور ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی صفات رحمت و ربوبیت کی نفی ہوجاتی ہے حالانکہ اس دنیا کا ہر گوشہ اس کی شہادت سے معمور ہے۔
Top