Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 49
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ : اور ہر چیز میں سے خَلَقْنَا : بنائے ہم نے زَوْجَيْنِ : جوڑے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اور ہر چیز سے ہم نے پیدا کئے جوڑے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔
ومن کل شیٔ خلقنازوجین لعلکم تذکرون (49) یہ اس کائنات کے ایک اور خاص پہلو کی طرف توجہ دلائی اور یہ پہلو بھی اپنے اندر قیامت اور جزاء وسزا کی دلیل رکھتا ہے۔ اس کائنات کا ایک خاص پہلو اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے۔ چناچہ اوپر آسمان و زمین کا ذکر ہوچکا ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر ہی اپنی غایت اور اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے اس سے ایک طرف تو توحید کی دلیل ملتی ہے کہ ایک مدبر و حکیم ہستی نے یہ دنیا پیدا کی ہے جو اس تمام کائنات سے بالاتر اور سب پر حاوی ہے اور اپنی قدرت حکمت کے تحت اس کے اجزائے مختلفہ میں ربط پیدا کرکے ان کو صالح نتائج کے ظہور کا ذریعہ بناتی ہے۔ دوسری طرف یہ آخرت کی بھی ایک بدیہی دلیل ہے اس لئے کہ اس دنیا کی ہر چیز جب جوڑا جوڑا ہی اور ہر چیز اپنی غایت کو اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر پہنچتی ہے تو ضروری ہے کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہوتا کہ اس میں جو خلا نظر آتا ہے اس جوڑے کی ساتھ مل کر بھر جائے۔ یہ جوڑا آخرت ہے۔ آخرت کو مان لینے کے بعد یہ دنیا ایک بامقصد وباحکمت چیز بن جاتی ہے اور آخرت کو نہ مانے تو ایک بالکل باطل وعبث چیز ہو کے رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے آخرت کو نہ ماننے والوں سے جگہ جگہ یہ سوال کیا ہے کہ کیا تم نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے، اس دلیل کی پوری وضاحت اس کے محل میں ہوچکی ہے۔ یہاں لعلکم تذکروں، کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا جوڑے جوڑے ہونا اس امر کی یاددہانی کرتا ہے کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہے جس سے اس کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ ہے آخرت۔
Top