Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ
اَمْ عِنْدَهُمْ : یا ان کے پاس خَزَآئِنُ : خزانے ہیں رَبِّكَ : تیرے رب کے اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ : یا وہ محفاظ ہیں۔ داروغہ ہیں
کیا انہی کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں یا وہ ان پر داروغہ مقرر ہیں !
(ام عند ھم خزائن ربک ام ھم المصیطرون) (37) (ایک اور سوال)۔۔۔۔۔ جس طرح کے سوال اوپر کی دو آیتوں میں کیے ہیں اسی طرح کا سوال یہ بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنے یا آسمان و زمین کے خالق نہیں تو کیا تیرے رب کے خزانوں کے مالک یا ان پر داروغہ ہیں کہ وہ خدا کی پکڑ سے بےفکر ہیں ! یعنی جس طرح کہ آسمان و زمین کے خالق ہونے کے مدعی نہیں ہو سکتے اسی طرح اس بات کے بھی مدعی نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رزق و فضل کے خزانے ان کے حوالے کردیئے ہیں یا ان کی تقسیم پر ان کو مامور کردیا ہے کہ جس کو چاہیں دیں، جس کو چاہیں نہ دیں، پھر ان کو یہ عرہ کیوں ہے کہ وہ خدا کی پکڑ میں نہیں آسکتے یا جس عیش میں وہ ہیں اسی میں رہیں گے۔ نہ اس دنیا میں وہ اس سے محروم ہو سکتے ہیں اور نہ آخرت میں (اگر وہ ہوئی) اس سے ان کو کوئی محروم کرسکتا ؟ قرآن نے جگہ جگہ قریش اور ان سے پہلے کی قوموں کے مترفین کے اس زعم کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی رفاہیت کو اپنا پیدائشی حق سمجھا اس وجہ سے پیغمبر کے انداز کو خاطر میں نہ لائے، یہ ان کے اسی خناس پر ضرب لگائی ہے کہ جب نہ وہ خدا کے خزانوں کے مالک نہ ان کی تقسیم پر مامور تو اس خبط میں مبتلا ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ جب چاہے چشم زدن میں ان کے سارے عیش کو خاک میں ملا دے سکتا ہے اور اپنی نعمتوں سے ان کو بہرہ مند کرسکتا ہے جن کو یہ کسی نعمت کا حق دار نہیں سمجھتے۔ قرآن نے یہی بات، معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ، قریش کے ان مغروروں کو بھی خطاب کر کے فرمائی ہے جو کہتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بشر ہی کو رسول بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو مکہ یا طائف کے کسی رئیس کو رسول بناتا، محمد ﷺ جیسے غریب و نادار کو کیوں رسول بناتا ؟ اسی طرح اگر یہ دین، جس کی یہ دعوت دے رہے ہیں، کوئی خدائی دین ہوتا تو اس کے حامل بننے کے لیے اللہ تعالیٰ ہم کو چنتا نہ کہ اس کے حامل وہ نادار قلاش ور غلام بنتے جن کو اس دنیا کی کوئی نعمت و عزت بھی حاصل نہیں ہوئی۔ اس آیت میں ان مغروروں نے غرور پر بھی ایک کاری ضرب لگا دی گئی ہے۔
Top