Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 21
اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى
اَلَكُمُ الذَّكَرُ : کیا تمہارے لیے لڑکے ہیں وَلَهُ الْاُنْثٰى : اور اس کے لیے لڑکیاں
تم اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لیے بیٹیاں !
(الکم الذکر ولہ الاتثی تلک اذا قسمۃ صیزی) (21، 22) (ستم بالا ستم)۔ ان فقروں کا اسلوب طنزیہ ہے، مطلب یہ ہے کہ تم اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتے ہو اور لڑکیوں سے اس درجہ نفرت کرتے ہو کہ جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوجائے وہ شرم سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، تو جب لڑکیوں سے متعلق تمہارے احساسات یہ ہیں تو کم از کم اپنے رب پر اتنا کرم تو کیا ہوتا کہ جس چیز کو اپنے لیے اس درجہ ناپسند کرتے ہو وہ اس کی گود میں نہ ڈالتے ! آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پیدا تو ہر چیز اللہ نے کی لیکن بیٹیاں تم اس کے حصے میں ڈالو اور بیٹے اپنے حصہ میں، یہ تقسیم تو نہایت غیر منصافنہ اور بھونڈی تقسیم ہوئی ! عدل و انصاف کا بدیہی تقاضا یہ تھا کہ جو چیز تم اپنے لیے ناپسند کرتے اس کو اپنے رب سے منسوب نہ کرتے۔ ضیزی کے معنی ہیں عدل و انصاف سے ہٹا ہوا معاملہ ضازہ کے معنی ہوں گے ظلمہ اس نے اس کے اوپر ظلم کیا، اس کے ساتھ ناانصافی کی۔ مطلب یہ ہے کہ اول تو خدا سے بیٹے بیٹیاں منسوب کرنا ہی اس کی شان الوہیت کے بالکل منافی اور عقل و فطرت کے بالکل خلاف ہے لیکن تم پہ ستم یہ کیا ہے کہ اس سے منسوب وہ چیز کی ہے جس کو خوداپنے لیے شرم کی چیز خیال کرتے ہو ! گویا اللہ کا مرتبہ تمہارے نزدیک تم سے بھی فروتر ہے۔
Top