Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
(اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمان اور جو کچھ زمین میں ہے کہ وہ بدلہ دے ان لوگوں کو جنہوں نے برے کام کیے ہیں ان کے کیے کا اور بدلہ دے ان لوگوں کو جنہوں نے اچھے کام کیے ہیں اچھا ،
4۔ آگے آیات 31۔ 55 کا مضمون آگے اسی مضمون کو جو اوپر والے پہرے میں بیان ہوا ہے مزید واضح اور موکد فرمایا ہے۔ پہلے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہی کے قبضہ میں ہے۔ تمہارے مزعومہ دیویوں دیوتائوں میں سے کسی کو بھی اس نے اپنا شریک نہیں بنایا ہے کہ وہ اس کے عدل و انصاف پر اثر انداز ہو سکے، چناچہ وہ لازماً ان لوگوں کو سزا دے گا جو گناہوں کے مرتکب ہوں گے اور ان لوگوں کو اصلہ دے گا جو نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے سفارشیوں یا اپنے حسب و نسب یا بزرگوں کو صلہ دے گا جو نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے سفارشیوں یا اپنے حسب و نسب یا بزرگوں کے ساتھ اپنی نسبت کے بل پر یا حرم اور حجاج کی چند ظاہری خدمتیں انجام دے کر، اپنے منہ میاں مٹھو بنے پھر رہے اور اپنے آپ کو جنت کا پیدائشی حق دار سمجھ رہے ہیں، ان سب کو خدا جہنم میں بھر دے گا، اس کی پکڑ سے صرف وہی بچیں گے جو کھلی ہوئی حق تلفیوں اور بےحیائیوں سے بچتے رہیں گے۔ اس طرح کے لوگوں سے اگر کوئی برائی وقتی طور پر صادر ہوجائے گی تو توبہ و اصلاح کے بعد اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔ اس کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے، جو لوگ اپنی برتری اور تقدس کے زعم میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ خواہ ان کے اعمال کچھ ہی ہوں، اللہ تعالیٰان پر ہاتھ نہیں ڈالے گا، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ ان کی خلقت کس چیز سے ہوئی ہے۔ مٹی، کیچڑ اور نجس پانی کی بوند سے پیدا ہوئی مخلوق کو اپنی پاک داہنی اور برتری کی حکایت زیادہ نہیں بڑھانی چاہیے۔ اس کے بعد ان لوگوں کی بر خود غلطی پر تعجب کیا ہے جو خدا کی راہ میں دینے دلانے کا تو کوئی حوصلہ نہیں رکھتے لیکن ابراہیم ؑ موسیٰ ؑ سے نسبت رکھنے کے زعم میں یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ آخرت میں ان کے لیے اونچے اونچے مراتب محفوظ ہیں حالانکہ ابراہیم ؑ و موسیٰ ؑ کی تعلیمات میں سب سے زیادہ نمایاں تعلیم یہی ہے کہ آخرت میں کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، بلکہ ہر ایک کے آگے اس کی اپنی کمائی ہی آئے گی۔ اس کے بعد یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ خوشی اور غم، زندگی اور موت، رزق اور اولاد، غنی اور فقر سب خدا ہی کے اختیار میں ہے اس وجہ سے ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جن لوگوں نے موسم بہار میں طلوع ہونے والے شعری کو معبود بنا رکھا ہے کہ بہار کی رونقیں اس کی بخشش سے حاصل ہوتی ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شعری کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس کے بعد پچھلی قوموں کا بالا جمال حوالہ دے کر قریش کو تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ قومیں بھی انہی گمراہیوں میں مبتلاہوئیں جن میں تم مبتلا ہو تو ان کے انجام اور ان کی تاریخ سے سبق حاصل کرو اور خدا کے غضب کو دعوت نہ دو ، اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (وللہ ما فی السموات والارض لیجزی الذین اساء وابما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی) (31) (خدا کی بادشاہی میں کسی کی حصہ داری نہیں)۔ اوپر کی آیات میں شرک و شفاعت کی جو تردید فرمائی ہے یہ اس کا نتیجہ سامنے رکھ دیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کے اختیار میں ہے، کسی اور کی حصہ داری ان کے اندر نہیں ہے کہ وہ خدا کے اقتدار کو چیلنج کرسکے یا اس کی مشیت میں کوئی مداخلت کرسکے یا اس کے ارادوں اور فیصلوں پر کسی پہلو سے اثر انداز ہو سکے۔ (لیجزی الذی۔۔۔ الایۃ) یہ ل بیان علت کے لیے نہیں بلکہ بیان نتیجہ کے لیے ہے، مطلب یہ ہے کہ جب تنہاوہی مالک و مختار ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ اپنے مزعومہ شرکاء اور سفارشیوں کے اعتماد پر بیٹھی نیند سو رہے ہیں وہ محض فریب نفس میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ عادل و حکیم ہے، وہ ان لوگوں کو ضرور سزا دے گا، جو گناہوں کے مرتکب ہوں گے اور کوئی نہیں ہے جو ان کو خدا کی پکڑ سے بچا سکے۔ اسی طرح لازماً وہ ان لوگوں کو جنہوں نے نیکی اور نیکو کاری کی زندگی گزاری ہوگی، نہایت ہی اچھا صلہ عطا فرمائے گا اور اس صلہ کے حصول کے لیے انہیں کسی دوسرے کی سفارش کی مطلق ضروری نہیں ہوگی۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بروں کے سامنے تو صرف ان کے برے اعمال کی حقیقت آئے گی، جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا وہ بےکم وکاست ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس پر کوئی اضافہ نہیں کرے گا، لیکن نیکوں کو صرف ان کی نیکیوں کا صلہ ہی نہیں ملے گا بلکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام بھی ہوگا، اللہ تعالیٰ عادل ہے اس وجہ سے وہ کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کرے گا لیکن وہ صاحب جو دو فضل بھی ہے اس وجہ سے اپنے نیک بندوں کو ان کے حق سے زیادہ بھی بخشے گا۔
Top