Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 40
وَ الْاَرْضَ وَ ضَعَهَا لِلْاَنَامِۙ
وَالْاَرْضَ : اور زمین وَضَعَهَا : اس نے رکھ دیا اس کو لِلْاَنَامِ : مخلوقات کے لیے
اور زمین کو اس نے بچھایا خلق کے لیے
(والارض وضعھا للانام فیھا فاکھۃ والنخل ذات الاکمام والحب ذوالعصف الریحان) (10۔ 13) (زمین کے اسباب ربوبیت کی طرف اشارہ)۔ آسمان کے عجائب قدرت کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ زمین کے اسباب ربوبیت کی طرف توجہ دلائی۔ آسمان کے لیے دفع کا لفظ استعمال فرمایا تھا اس کے مقابل میں زمین کے لیے وضع کا لفظ نہایت موزوں اور معنی خیز استعمال فرمایا کہ آسمان کو شامیانے کی طرح تان دیا اور زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ اس کی مخلوقات کے لیے یہ ایک آرام دہ مکان بن جائے۔ پھر جس طرح آسمان پر سورج، چاند اور ستاروں کے چراغ اور قمقمے لگادیئے کہ اس گھر کو روشنی اور حرارت حاصل ہوتی رہے اسی طرح اس گھر میں مختلف قسم کے پھلوں، غلوں اور پھولوں کے انبار بھی لگا دیئے کہ اس کے مکینوں کو غذا بھی حاصل ہو، اس کے پھلوں سے وہ لذت اندوز اور خوش کام ہوں اور اس کے پھول ان کے لیے با صرہ نوازی اور معطر مشامی کا سامان بھی مہیا کریں۔ یہاں غلے کے ساتھ پھلوں اور خاص طور پر پھولوں کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے صرف پیٹ بھرنے ہی کا سامان نہیں کیا ہے بلکہ ان کے ذول و جمال، لذت کام و دہن اور شوق آرائش کا بھی سامان کیا ہے جو اس کی ربوبیت ہی کی دلیل نہیں بلکہ خاص اہتمام ربوبیت کی دلیل ہے۔ اسی طرح حب کے ساتھ ذوالعصب کی صفت اور نخل کے ساتھ ذاب الاکمام کی صفت اس خاص عنایت پر دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرمائی ہے کہ اس نے غلے اور پھل جو دیے تو اس طرح نہیں کہ گویا پھینک مارے ہوں بلکہ ایک ایک دانے اور ایک ایک پھیل کی پیکنگ کا ایسا اعلیٰ انتظام فرمایا ہے کہ انسان اس کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہتمام اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے رب کی اس پروردگاری کا حق پہنچانے، اس کا شکر گزار رہے اور یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارے کہ جس نے اس کے لیے یہ سارا اہتمام کسی استحقاق کے بغیر کیا ہے وہ اس کو یوں ہی شتر بےمہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا بلکہ حساب کتاب کا بھی ایک دن وہ لائے گا۔ اس آیت میں لفظ ریحان سے متعلق ایک تنبیہ بھی ضروری ہے بعض لوگوں نے اس کے معنی پتوں کے لیے ہیں لیکن اس معنی میں یہ لفظ نہ عربی زبان میں استعمال ہوا ہے اور نہ یہاں پتوں کے ذکر کا کوئی محل ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے غلہ کے ذکر کے ساتھ پھول کا ذکر ان حضرات کو بےجوڑ سا معلوم ہوا اس وجہ سے انہیں یہ انوکھی تاویل کرنی پڑی حالانکہ اس کے ذکر کا ایک محل ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کردی۔
Top